وفاداری کی اعلیٰ مثال

0

دوہزار چوبیس میں سیاسی موسم بدل چکا تھا اسے معلوم تھا کہ الیکشن جیتنے کے باوجود اسکے ساتھ کیا ہونے والا ہے ،وہ یہ بھی دیکھ رہا تھا کہ اسکے لیڈر کی وزارتِ عظمیٰ کے دور میں بڑی بڑی وزارتوں کے مزے لینے والے وفاداریاں تبدیل کر رہے تھے، جو اسکے لیڈر کیلئے جان دینے کی قسمیں کھاتے تھے وہ غائب ہو چکے تھے اور اپنے جان و مال کی حفاظت کے لیے لیڈر کے خلاف بیانات دینے لگے تھے ، لہٰذا یہ وہ وقت تھا جب اس نے فیصلہ کرنا تھا کہ وفاداری کے امتحان میں پورا اترنا ہے یا اپنی جان اور مال و دولت بچانے کیلئے غداری کا طوق اپنے گلے میں ڈالنا ہے؟ اس نے اپنے لیڈر کا ساتھ نبھانے کا فیصلہ کیا اور پھر وہی ہوا جس کا خدشہ تھا ،گھروں پر چھاپے پڑنا شروع ہوئے۔

دہشت گردی سمیت دیگر خطرناک مقدمات قائم ہوئے،قریبی رشتہ داروں کی گرفتاریاں ہوئیں اور پھر وہ گرفتار ہوگیا، وفاداری تبدیل کرنے کیلئے دبائو ڈالا گیا ، لیکن وہ ڈٹا رہا اور شدید تشدد کے سبب اسے جیل سے اسپتال داخل کرنا پڑا ، صحت اتنی خراب ہوئی کہ آئی سی یو میں داخل ہوا لیکن جبر و تشدد کے باوجود اس نے اپنے قائد کا ساتھ نہ چھوڑا ، اب صورتحال یہ ہے کہ اس کا کاروبار تباہ ہوچکا ہے ،درجنوں مقدمات ا س پر قائم ہیں کئی رشتہ دار گرفتار ہیں لیکن وہ ڈٹا ہوا ہے، اس شخص کا نام امجد علی خان نیازی ہے۔ جسے نہ دولت کا لالچ تھا، نہ وزارت کی خواہش اورنہ صلے کی تمنا لیکن وفاداری جس کےخون میں ایسی ہے کہ دولت ، شہرت ،جان و مال سب دائو پر لگا دیا لیکن عمران خان سے غداری کا سوچنا بھی جرم سمجھا۔

میانوالی کا امجد خان نیازی بھی عجیب انسان ہے کیونکہ یہ عمران خان کے قریب ترین ساتھیوں میں سے ایک تھا، عمران خان کے دور حکومت میں وہ حلقہ این اے پچانوے کے تمام معاملات سنبھالے ہوئے تھا، وہ خود این اے چھیانوے میانوالی سے رکن قومی اسمبلی تھا اور دونوں علاقوں میں بہترین ترقیاتی کاموں کی نگرانی کر رہا تھا چاہتا تو وزارت عمران خان اس کی جھولی میں ڈال دیتا لیکن اس نے کبھی وزارت کی خواہش نہ کی۔ مجھے آج بھی یا د ہے کہ عمران خان کی وزارت عظمیٰ کا دور تھا سنگاپور میں مقیم میرے کزن جو ایک بڑی شپنگ کمپنی کے مالک ہیں، پی این ایس سی، پاکستان مرچنٹ نیوی شپنگ کارپوریشن کی زبوں حالی کو دیکھتے ہوئے پاکستان کیلئے انکی محبت جاگی اور وہ پاکستان کی مرچنٹ نیوی کے شعبے میں پچاس بڑے بحری جہازوں کے ساتھ دو ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا منصوبہ لیکر پاکستان پہنچے۔

وہ اس وقت کے چیف جسٹس ثاقب نثار کی جانب سے دیا میر بھاشا ڈیم کے لیے قائم کردہ فنڈ میں ایک لاکھ ڈالر کا چندہ دیناچاہتے تھے، عمران حکومت کے دو وزرا سے رابطہ کیا لیکن ہر کسی نے وہ ایک لاکھ ڈالر اپنے لیے حاصل کرنے کی کوشش کی لیکن میرے کزن کی خواہش تھی کہ وہ اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان سے ملکر انھیں نہ صرف ایک لاکھ ڈالر کا چندہ دے اور ساتھ ہی دو ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا منصوبہ بھی پیش کرے، جس کے بعد میں نے امجد خان نیازی سے رابطہ کیا انھیں ساری صورتحال سے آگاہ کیا تو امجد خان نیازی نے صرف ایک ہفتے بعد ہی عمران خان سے ملاقات کا بندوبست کر دیا جہاں سنگاپور کی کاروباری شخصیت نے عمران خان کو ایک لاکھ ڈالر کے عطیہ کے ساتھ دو ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا منصوبہ بھی پیش کیا ،عمران خان نے اس منصوبے کو سراہا اور ملاقات ختم ہو گئی۔

عمران خان ایک کونے میں کھڑے ہو کر امجد خان نیازی کے ساتھ اپنے حلقے این اے پچانوے کے حوالے سے دس منٹ تک گفت و شنید میں مصروف رہے جس سے اندازہ ہو ا کہ عمران خان امجد خان نیازی کےکتنے قریب تھے ۔ کئی دفعہ میں نے امجد نیازی سے پوچھا بھی کہ عمران خان کے اتنے نزدیک ہونے کے باوجود آپ نے آج تک کوئی وزارت کیوں نہ لی ،جسکے جواب میں انہوںنے بتایا کہ عمران خان کا ہر رکن اسمبلی وزیر بننا چاہتا ہے لیکن میں عمران خان کا وفادار ساتھی ہونے پر فخر کرتا ہوں ۔

امجد خان نیازی کے حوالے سے بعض لوگ یہ بھی نہیں جانتے ہونگے کہ وہ اپنے وقت کے عظیم سیاستدان ڈاکٹر شیر افگن نیازی کے صاحبزادے ہیں جن کی میراث میں وفاداری اور ایمانداری کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کی تمام سیاسی جماعتیں جن میں ن لیگ ہو یا پیپلز پارٹی ہر جماعت میں ان کے وفادار اور جانثار ساتھی موجود ہیں اور یہ جماعتیں اپنے وفادار ساتھیوں کے باعث ہی آگے بڑھی ہیں جبکہ امجد خان نیازی جیسے وفادا ر ساتھیوں کے سبب ہی عمران خان کی تحریک انصاف بھی ملک کی بڑی جماعت بنی۔ امید ہے عمران خان بھی مشکل وقت میں تن من دھن کی قربانیاں دینے والے اپنے ساتھیوں کو اچھے وقت میں نہیں بھولیں گے۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.

error: Content is protected !!