ملیشیا میں پناہ گزینوں کی حالت زار‎

0

جو بھی ہو ذلالت محض اپنی شکل بدلتی ہے مگر پیچھا نہیں چھوڑتی۔
میں کچھ عرصے سے ملیشیا میں رگڑے کھا رہا ہوں۔اور دیکھا کہ بہت سے نئے لوگ بھی یہاں آکر اسی رگڑے میں شامل ہو جاتے ہیں جبکہ ان کو اس کی حقیقی ضرورت نہیں ہوتی۔ جو بات کوئی لاکھوں برباد کر کے اور اپنی زندگی کے قیمتی ماہ و سال کے زیاں میں سیکھے گا وہ اس کالم کے توسط سے مفت سمجھانے کی اک کاوش کرنے لگا ہوں اگر چہ جانتا بھی ہوں کہ

کون سمجھا ہے فقط باتوں سے
سب کو اک حادثہ ضروری ہے

پاکستان میں جو لوگ مذہبی،سیاسی،نسلی بنیادوں پر انسانی حقوق کی عدم فراہمی کا شکار ہیں اور عوام یا ریاست کی جانب سے اذیت دئیے گئے ہیں ان کا بنیادی انسانی حق ہے کہ وہ کسی بھی دوسرے ملک میں جہاں یو این ایچ سی آر کا دفتر موجود ہو اور کام بھی کر رہا ہو وہاں کسی بھی طرح قانونی یا غیر قانونی طریقے سے پہنچ کر پناہ کی درخواست دے سکتا ہے۔ اس عالمی قانون کا سہارا لے کر بہت سے بے روزگار بھی تارکین وطن ہوئے جاتے ہیں اور دیگر ممالک میں پناہ گزینوں کی تعداد اور مسائل بڑھا رہے ہیں۔

میں چونکہ ملیشیا میں ہوں یہاں پر بہت زیادہ تعداد میں لوگ برما،شام،پاکستان،سری لنکا اور فلسطین سے آئے ہوئے ہیں۔ یہاں کی یواین ایچ سی آر کے دفتر نے براہ راست کسی کے بھی آنے پر سختی سے پابندی لگا دی ہے اور آن لائن ویب پر رجسٹریشن کرانے کا نظام متعارف کرایا ہے جس میں بہت ساری خامیاں بھی اگر چہ ہیں مگر خود جا کر رجسٹر ہونے سے بہتر ہے۔ اس کا ایک فائدہ یہاں کے فراڈیوں کو ہوا جو دو تین سو رنگٹ لے کر جعلی رجسٹریشن پیپر بنا کر دے دیتے ہیں فوٹو شاپ کے ذریعے۔

ملیشیا میں پناہ گزین اتنی تعداد میں ہو گئے ہیں کہ اندازہ اس بات سے لگا لیں ہمیں پناہ کے لئے رجسٹر ہوئے6ماہ ہونے کو آئے ابھی تک وہ ہمیں انٹریو کی کال نہیں کر پائے اور ایسے لوگوں کو بھی جانتا ہوں جنہیں ڈھائی سال ہو گئے کوئی کال نہیں آئی۔ اس کی ایک وجہ شاید یہ بھی ہے کہ پاکستانیوں کو یہاں بھی اچھی نظر سے نہیں دیکھا جاتا کیونکہ یہاں زیادہ تر پاکستانی جھوٹے مسائل پیش کرتے ہیں ان کا حقیقی مقصد ہوتا ہے ملیشیا میں آکر کمانا اور جب تک یہاں ہیں انہیں ویزہ نہ لینا پڑے اس لئے پناہ اپلائی کر دیتے ہیں۔

پناہ گزینوں کو یہاں نوکری کرنے پر سختی سے لیا جاتا ہے جیل تک بھیجا جا سکتا ہے۔ یہاں کی پولیس کا کوئی حال نہیں وہی پاکستانی حساب کتاب سے چلتے ہیں۔ غیر ملکیوں کو چہرے مہرے سے پہچان لینے میں مہارت رکھتے ہیں روک کر حراساں کرتے ہیں کوئی بھی جواز ڈرانے کا نہ ملے تو آپ کا موبائل لے کر اس میں سے نازیبا مواد تلاش کر کے جو کہ عموماً ہر کسی کے موبائل میں نکل ہی آتا ہے،کہتے ہیں ہم آپ کو اس بات پر گرفتار کر کے جج کے پاس پیش کریں گے وہی فیصلہ کرے گا پھر آخر کار بات سو پچاس رنگٹ میں ختم ہو جاتی ہے۔

لیکن کبھی کوئی پولیس والا گھر میں بیوی سے لڑ کے ڈیوٹی پر آیا ہو تو آپ کی خیر نہیں آپ پناہ گزیں ہیں اس بات کا احترام کرنا تو دور کی بات ہے الٹا اس پر اذیت دیتے ہیں۔ کیونکہ جن کو یو این نے پکچر لیٹر ابھی نہیں دیا جو کہ پہلے انٹرویو کے بعد مل جاتا ان کو گرفتار کرکے تھانے بند کر دیا جاتا ہے اور یواین سے پولیس تصدیق کرنے کے بعد غریب کو چھوڑا جاتا اس میں 14 دن تک لگ جاتے ہیں۔ پچھلے دنوں ایک پکچر لیٹر والے کو بھی اٹھا کر لے گئے حالانکہ لیٹر پر کیو آر کوڈ ہوتا ہے جسے سکین کر بھی تصدیق کی جا سکتی ہے۔

ایمگریشن جگہ جگہ چھاپے مارتی ہے خصوصاً جہاں پر کام کرتے ہوئے پناہ گزیں مل جائیں ان کی گاڑیاں بھر بھر کے انہیں حراست میں لے جایا جاتا ہے۔ یہاں کے لوکل بھی بڑے شرارتی ہیں پناہ گزیں جن جگہوں پر اکھٹے رہ رہے ہوتے ہیں ان کی شکایت کر دیتے ہیں پھر گھر میں اچانک ایمگریشن چھاپا مار کر سب کو اٹھا کر لے جاتی ہے۔ ایک دفعہ یہاں پر برما کے لوگوں پر سختی شروع کر دی گئی تھی اور انہیں پکڑ پکڑ واپس بھیج رہے تھے کچھ انسانی حقوق کا درد رکھنے والے وکلاء نے یہاں کی کورٹ سے رجوع کر کے عدالتی آڈر بھی لیا کہ ایسا کرنا غلط ہے پھر بھی پولیس نے کہا ہمیں اس آڈر کی بھی کوئی پروا نہیں۔

یہاں پر وزٹ پر آنے کے خرچے کی بات کریں تو چار لاکھ تک لگ جاتا ہے اور ایک ماہ کا وزٹ ختم ہوتے ہی یہاں آپ غیر قانونی رہائشی ہو جاتے ہیں۔ جیسے ہی کسی پولیس والے کے ہاتھ چڑھے موقع پر مک مکا نہیں ہوا تو پاکستان سے پیچھے آپ کی بریک نہیں لگنی اور ڈی پورٹ کرنے سے قبل چند ماہ میں یہاں کی بکواس جیل میں بھی رہنا پڑتا ہے جہاں ابلے چاول اور بدبو دار مچھلی کھانے میں ملتی ہے۔ پکا ویزہ یہاں ایک سال سے زیادہ کا نہیں ملتا اور اس کا بھی ریٹ سات لاکھ سے کم نہیں۔ اور سات یا چار لاکھ پاکستان میں کسی کام میں لگایا ہو تو عزت سے گھر بیٹھے آمدنی کا سلسلہ چل سکتا ہے مگر ایک رائے عامہ بن گئی ہے کہ جو لوگ پاکستان سے باہر جاتے ہیں وہی سکھی رہتے ہیں۔ جبکہ قبر کا حال تو مردہ ہی جانے۔

آپ اگر اپنے شہر میں کاروباری صورتحال اچھی نہیں دیکھتے تو شہر بدل لیں یا صوبہ بدل لیں مگر ملک بدلنے سے پہلے کئی بار سوچیں کیونکہ آپ کہیں بھی رہیں ۔۔۔۔۔
جو بھی ہے ذلالت محض اپنی شکل بدلتی ہے مگر پیچھا نہیں چھوڑتی

Leave A Reply

Your email address will not be published.

error: Content is protected !!