آنسو خشک ہو گئے روتے روتے۔مقبوضہ کشمیر میں ظلم کے جو پہاڑ توڑے جارہے ہیں۔ کیا انسانیت اتنی سستی ہو گئی ہے ؟
جیسا کہ اپ کے علم میں ہے میں نے ہمیشہ جب بھی اپنا قلم اٹھایا ہے تو انسانیت اور امن کے لیے اٹھایا ہے۔ پر اب لگتا ہے کہ بہت ہو چکا شاید ان دیواروں میں کوئی سننے والا نہیں۔ میرا کالم کا مقصد ان مظلوموں کے ساتھ اظہار یکجہتی ہے جو کئی برسوں سے ظلم کی چکی میں پس رہے ہیں۔ میرا کالم کشمیر کے نہتے معصوم اور مظلومیت کے شکار کشمیری بہن بھائیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی ہے۔ پانچ فروری یومِ یکجہتی کشمیر کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اب ہر روز ہی اظہارِ یکجہتی منایا جائے پھر بھی کم ہے، کیونکہ مودی سرکار نے ظلم و بربریت کے تمام ریکارڈ توڑ دئیے، 5 اگست 2019ء کو جبری طور پر یک طرفہ، اقوام متحدہ کی قراردادوں کو پس پشت ڈالتے ہوئے، کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کی اور پھر مزاحمت کے ڈر سے آج تک محاصرہ، لاک ڈاون برقرار ہے۔ وادیِ کشمیر فوجی چھاونی کے ساتھ ہی دُنیا کی سب سے بڑی جیل میں تبدیل ہو چکی، جس میں 90 لاکھ انسان خوراک ، ادوایات کی شدید قلت، سخت سردی کے باعث زندگی موت کی کشمکش میں مبتلا ہیں۔
کچھ نظر اس حقیقت پر۔۔۔
پاکستان اور بھارت دو جوہری طاقتوں کے درمیان دو طرفہ تعلقات میں بد اعتمادی کی فضا اور ہر متعلقہ ایشو پر ایک دوسرے پرسبقت لے جانے، ہزیمت سے دو چار کرنے اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے عمل کی داستان بہت طویل ہے اور وقتاً فوقتاً اس میں فریقین کی کامیابیوں اور ناکامیوں کے نشیب و فراز بھی آتے رہتے ہیں گو کہ اس دوران دونوں ملکوں کے درمیان جنگ و جدل بھی ہوئی لیکن جیسا کہ تاریخ بتاتی ہے کہ جنگ میں انسانی جانوں کے ضیاع اور تباہی و بربادی کے بعد بھی آخری حل کیلئے مذاکرات میں باقی بچتے ہیں جس پر فریقین کو غیر مسلح ہو کر ایک ساتھ بیٹھنا پڑتا ہے لیکن اگر ماضی قریب کا جائزہ لیا جائے تو جب سے نریندر مودی نے بھارتی وزیراعظم کا منصب سنبھالا ہے دونوں ملکوں کے تعلقات میں روایتی سرد مہری کی جگہ بھارت کی جانب سے کئے جانیوالے متعدد اقدامات کے باعث خوفناک حد تک مختلف شکل اختیار کرتی جارہی ہے۔
جو ”مقبوضہ کشمیر“ کہلاتا ہے۔۔۔۔
برصغیر پاک و ہند کے شمال مغرب میں واقع ایک ریاست ہے جس کا کل رقبہ 69547 مربع میل ہے۔ یہ ریاست 1947 کے بعد جموں کشمیر میں تقسیم ہو گئی۔ اِس وقت بھارت 39102 مربع میل پرجبری طور قابض ہے جو ”مقبوضہ کشمیر“ کہلاتا ہے۔ اس کا دارالحکومت سری نگر ہے، بقیہ علاقہ آزاد کشمیر کہلاتا ہے جو 25 ہزار مربع میل رقبہ پر پھیلا ہوا ہے اور اس کا دارالحکومت مظفر آباد ہے۔ ریاست کی کل آبادی ایک کروڑ کے قریب ہے جس میں سے 40 لاکھ آزاد کشمیر میں ہیں۔ہندو راجاوں نے تقریباً 4 ہزار سال تک اس علاقے پر حکومت کی۔ 1846ء میں انگریزوں نے ریاست جموں کشمیر کو 75 لاکھ روپوں کے عوض ڈوگرہ راجا غلام سندھ کے ہاتھوں فروخت کر دیا۔ کشمیر کی آبادی 80 فیصد مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ ہندو راجا نے بزور شمشیر مسلمانوں کو غلام بنا رکھا تھا۔ تقسیم ہند کے بعد ہندو مہاراجہ ہری سنگھ نے مسلمانوں کی مرضی کے خلاف 26 اکتوبر 1947 کو بھارت کے ساتھ الحاق کا اعلان کردیا، اس کے نتیجے میں پاکستان اور بھارت میں جنگ کا آغاز ہوا۔سلامتی کونسل کی مداخلت پر یکم جنوری 1949ء کو جنگ بندی ہو گئی۔ سلامتی کونسل نے 1948ءمیں منظور شدہ دو قراردادوں میں بھارت اور پاکستان کو کشمیر سے افواج نکالنے اور وادی میں رائے شماری کشمیر کروانے کے لیے کہا۔ اس وقت بھارتی وزیراعظم پنڈت جواہر لال نہرو نے رائے شماری کروانے کا وعدہ کیا مگر بعد ازاں اس وعدے سے منحرف ہو گئے۔ پاکستان نے بھارت سے آزاد کرائے گئے علاقے میں آزاد کشمیر کی ریاست قائم کردی جبکہ مقبوضہ کشمیر کا تنازعہ اب بھی جاری ہے، بھارت نے یک طرفہ تقسیم کر کے آزادی کشمیر تحریک کو مزید دوام بخشا، حالانکہ اس مسئلے کے حل میں اقوام متحدہ کا عالمی فورم، کشمیری عوام کے استصواب رائے کے مطالبے کو تسلیم کرچکا ہے۔
40 لاکھ سے زائد کشمیری بے گھر ہو چکے ہیں۔۔۔۔
ویسے تو کشمیری حریت پسند آزادی کی یہ جنگ گزشتہ 70 سال سے بدستور لڑ رہے ہیں جس کی پاداش میں 40 لاکھ سے زائد کشمیری بے گھر ہو چکے ہیں جبکہ ڈیڑھ لاکھ سے زائد لوگ آزادی کی اس راہ میں جام شہادت نوش کر چکے ہیں۔ 70 سال سے وہاں تعینات بھارتی فوجیوں، اسپیشل فورسز اور پولیس نے، جن کی تعداد آج 8 لاکھ سے زائد ہوچکی ہے، نے مسلمان نہتے کشمیریوں پر عرصہ حیات تنگ کر رکھا ہے۔
لاکھوں بچے یتیم ہورہے ہیں۔۔۔۔۔
روزانہ کی بنیاد پر وہاں خواتین کی عصمتیں تار تار کی جارہی ہیں، ماں اور بہنوں سے ان کے سہاگ چھینے جارہے ہیں، لاکھوں بچے یتیم ہورہے ہیں ، مگر آج بھی ان کشمیریوں کے لب پر ایک ہی صدا گونج رہی ہے: ”کشمیر بنے گا پاکستان“. بھارتی افواج کے مظالم میں دن بدن بے پناہ اضافہ ہو رہا ہے جس کے تحت نہ صرف مرد، خواتین اور بچوں کو شہید کیا جارہا ہے بلکہ بزرگوں کو بھی نہیں بخشا جا رہا، ظلم کی حد تو یہ ہے کہ کشمیر کے نوعر لڑکوں اور نوجوانوں کی آنکھیں نکالی جا رہی ہیں، ان پر ربڑ اور لوہے کی وہ گولیاں برسائی جا رہی ہیں جو اس قدر مہلک ہیں کہ شکار کے دوران بڑے جانوروں جیسے گینڈے اور ہاتھی پر برسائی جاتی ہیں اور انسانوں کیلئے ممنوع ہیں، جبر کے ان ہتھکنڈوں کے نتیجے میں لاتعداد افراد معذور ہو رہے ہیں۔ مگر ماسوائے اللہ کے، ان کا بھری دُنیا میں کوئی حقیقی حال سے واقف نہیں۔ عالمی فورم اور اقوام متحدہ بھی خاموش تماشائی بن کر اس ظلم و بربریت کو دیکھ رہے ہیں جبکہ انسانی حقوق کا چیمپئن امریکا، بھارت سے تجارتی تعلقات بہتر بنانے کیلیے اس سے پینگیں بڑھا رہا ہے۔ شاید وہ مقبوضہ کشمیر کو بھارت ہی کا حصہ تسلیم کر چکا ہے، وہ کسی نہ کسی طریقے سے بھارت کی سرپرستی کرنے میں مصروف عمل ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں ظلم کے جو پہاڑ توڑے جارہے ہیں اور جس طرح وہاں بھارت کی فوجیں قابض ہیں، ان کے خلاف پاکستان نے ہمیشہ اپنے بھائی بہنوں کی اخلاقی اور سفارتی مدد کی ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ پاکستان کی کشمیر کاز کے ساتھ وابستگی اٹل ہے۔
بھارت میں اقلیتوں کے ساتھ ناروا سلوک۔۔۔
بھارت میں اقلیتوں کے ساتھ ناروا سلوک کی داستانیںاب زبانِ زد عام ہیں۔ مسلمان ہوں ، سکھ یا دوسری اقلیتیں، وہ بھارت میں محفوظ نہیں۔ جمہوریت کا سب سے بڑا علمبردار اور داعی دنیا کے سامنے اب بے نقاب ہونے لگا ہے۔ دنیا اس کا اصل چہرہ دیکھ رہی ہے کہ وہ کتنا پراگندہ اور مکروہ ہے۔ کشمیر میں جاری گزشتہ تین دہائیوں سے بھارت کے ظلم و ستم اور تشدد کی بہیمانہ کارروائیوں نے مہذب قوموں کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ اقوام متحدہ میں کئی بار اِن مظالم کی گونج سنائی دی ہے۔ مگر شومئی قسمت کہ دنیا نے اس کا کوئی سنجیدہ نوٹس نہیں لیا۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت کے حوصلے بہت بلند ہیں۔ بھارت اقلیتوں کے خلاف اپنی من مرضی کی کارروائیوں سے باز نہیں آتا۔ اقوام متحدہ کے تحت ہر سال منعقد ہونے والی کانفرنس میں پچھلے کئی سالوں سے بھارت، پاکستان کے خلاف نفرت انگیز بیان بازی کرتا تھا۔ بھارتی نمائندوں کی تقریروں کا ہدف پاکستان اور خطے میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعات ہوتے تھے۔ بھارت ان کا لنک ثبوتوں کے بغیر ہمیشہ پاکستان سے جوڑتا تھا جس کا مقصد پاکستان کو بین الاقوامی برادری میں ذلیل و رسوا کرنا ہوتا تھا تاکہ بین الاقوامی برادری کی نظروں میں پاکستان کمتر اور کمزور دکھائی دے۔
اقوام متحدہ کے ہیومن رائٹس کے سیکٹر نے بھارت کی ایسی 265آرگنائزیشن اور ویب سائٹوں کو بلیک لسٹ کر دیا۔۔۔۔
تاہم 2018ءمیں انٹرنیشنل ہیومن رائٹس موومنٹ کے سربراہ رانا بشارت نے اقوام متحدہ میں ہونے والی کانفرنس میں پاکستان کے خلاف بھارت کے مذموم پروپیگنڈے کو نا صرف بے نقاب کیا بلکہ دنیا کو باور کرایا کہ بھارت کا پراپیگنڈہ غیر منطقی حقائق پر مبنی ہے اور بُغض کا انتہائی زہریلا مادہ لئے ہوئے ہے۔ اس مثبت جواب کا اثر یہ ہوا کہ بھارت نے رواں سال ہونے والی کانفرنس میں پاکستان کے خلاف کسی بھی قسم کے منفی پراپیگنڈے سے گریز کیا۔ یہی نہیں بلکہ یہ بھی ہوا کہ اقوام متحدہ کے ہیومن رائٹس کے سیکٹر نے بھارت کی ایسی 265آرگنائزیشن اور ویب سائٹوں کو بلیک لسٹ کر دیا جو پاکستان کےخلاف منفی اور مذموم پروپیگنڈے میں مصروف تھیں۔ بھارت کو اس محاذ پر ہماری جوابی کارروائی کے باعث منہ کی کھانی پڑی اور اس سال وہ اپنا کوئی کیمپ بھی اقوام متحدہ میں نہیں لگا سکا جسے پاکستان کی بڑ ی سفارتی کامیابی اور بھارت کی ناکامی سے تعبیر کیا جا رہا ہے۔ بی جے بی بھارت میں اقلیتوں کے خلاف جو کچھ کر رہی ہے یہ کوئی اب ڈھکی چھپی بات نہیں رہی۔ بی جے بی نریندر مودی کی جماعت ہے جس نے 2014ءمیں اقتدار میں آنے کے بعد اقلیتوں کا جینا مشکل بنا دیا۔ انتہا پسند ہندؤوں کے ہاتھوں مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کو جس طرح اپنے نشانے پر رکھا اور اُن کے لیے قدم قدم پر جو مصائب اور مشکلات پیدا کیں۔ تاریخ اُس کی گواہ ہے۔ بھارت میں مسلمانوں کو آئینی تحفظات کے باوجود منظم امتیازی سلوک، تعصب، بہیمانہ مار پیٹ اور تشدد کا نشانہ بننا پڑتا ہے۔مقبوضہ جموں و کشمیر میں آٹھ لاکھ سے زیادہ بھارتی فوج وادی کا محاصرہ کئے ہوئے ہے۔ یہ سلسلہ تسلسل کے ساتھ گزشتہ تین دہائیوں سے جاری ہے۔ انٹرنیشنل میڈیا کے نمائندوں نے متعدد بار سری نگر آنے کی کوشش کی تاکہ دنیا کو کشمیر کے حالات سے باخبر کر سکیں مگر بھارتی حکومت نے انہیں کشمیر آنے کی اجازت نہیں دی۔
بھارت کا مقامی میڈیا بھی اقلیتوں کی آواز کو دبانے۔۔۔
بھارت کا مقامی میڈیا بھی اقلیتوں کی آواز کو دبانے کے لیے اپنی سرکار کا ساتھ دے رہا ہے اور تمام انفارمیشن رکھنے کے باوجود اقلیتوں کی آواز بننے سے قاصر ہے۔ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بھارت میں میڈیا کو بھی زیر اثر لایا گیا ہے تاکہ اقلیتوں کے ساتھ ہونے والے بھارتی ناروا سلوک کی کہانیاں منظر عام پر نہ آ سکیں اور دنیا اُس سے بے خبر اور لاعلم رہے۔ لیکن یہ کب تک ہو گا اور ہوتا رہے گا۔ اُس وقت نے بالآخر ضرور آنا ہے جب بھارت کا اصل چہرہ دنیا کے سامنے بے نقاب ہو گا اور دنیا جان لے گی کہ جمہوریت کا راگ الاپنے والے جمہوری قدروں سے کتنے دور ہیں۔بھارت میں بسنے والی جتنی بھی اقلیتیں ہیں وہ بھارتی شہریت رکھتی ہیں۔ لہٰذا اُن کے آئینی اور انسانی حقوق کا تحفظ بھی بھارتی حکومت کی ذمہ داری ہونی چاہیے ، نیز یہ کہ ہمیں ہر وقت، ہر لمحے اس کے لیے آواز اٹھاتے رہنا چاہیے۔
کشمیر ضرور آزاد ہوگا۔۔۔
میرا دل گواہی دیتا ہے کہ ایک دن کشمیر ضرور آزاد ہوگا، کشمیری عوام کی قربانیاں رائیگاں نہیں جائیں گی اور وہ آزادی کے ساتھ زندگی بسر کرسکیں گے۔امید کرتا ہوں کہ اپ کو میرا کالم سمجھ بھی ایا ہوگا اور اپ سب میری اواز بنیں گے۔ حقیقت کبھی چھپ نہیں سکتی۔