واشنگٹن (ویب ڈیسک) امریکی صدر ٹرمپ نے اعلان کیا تھاکہ وہ 2 اپریل کے قریب درآمدی گاڑیوں پر ٹیرف عائد کرنے کا منصوبہ رکھتے ہیں۔ یہ تاریخ ٹرمپ کے "توہمات” کی وجہ سے طے کی گئی ہے، جو اصل میں 1 اپریل کو اپریل فول کے دن ٹیرف پالیسی نافذ کرنا چاہتے تھے، لیکن پھر انہوں نے اسے بدل کر 2 اپریل کر دیا، کیونکہ 1 اپریل کو منحوس دن سمجھا جاتا ہے۔درحقیقت، میں ٹرمپ کے فیصلے کو مکمل طور پر سمجھتا ہوں اور اس کی تائید کرتا ہوں، کیونکہ ان کے بظاہر پراسرار انداز کو دیکھتے ہوئے، اگر وہ اپریل فول کے دن ٹیرف کا اعلان کرتے تو پوری دنیا الجھن کا شکار ہو جاتی، کہ ” آیا یہ سچ ہے یا جھوٹ؟”۔ خود کو "ٹیرف کا گاڈفادر” کہلوانے والے ٹرمپ نے قومی معاشی حکمت عملی میں پیش گوئی کرنے والے ٹیروٹ کارڈز (TAROT) کو استعمال کرنا شروع کر دیا ہے۔
وہ "ٹیرف سب سے خوبصورت لفظ ہے” کے منتر پڑھتے ہوئے پالیسی کیلنڈر پر "مبارک دن” تلاش کرتے ہیں، جس سے بین الاقوامی سیاسی منظر نامہ ایک بورنگ کلشے کی بجائے ہر روز نئے تجربات کا سامنا کرتا ہے اور گلی کوچوں میں گفتگو کے موضوعات زندگی کو زیادہ رنگین بنا دیتے ہیں۔اگر ٹرمپ کی ٹیرف پالیسی میں کوئی مستقل منطق ہے، تو وہ یہ ہے کہ "توہمات کو ترجیح دی جائے، اور عقلیت کو پس پشت ڈال دیا جائے”۔ 2018 میں چین پر ٹیرف لاگو کرنے کے بعد سے، ان کی ٹیم ایک عجیب عقیدے میں مبتلا ہو گئی ہے جس کے مطابق اگر ٹیرف کی شرح کو کافی زیادہ کر دیا جائے، تو امریکہ کا تجارتی خسارہ جادوئی طور پر غائب ہو جائے گا اور چین، ہاوس آف کارڈز کی طرح گر جائے گا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ چین نہ صرف گرنے کے بجائے مزید مضبوط ہوا ہے، بلکہ چین کی طرف سے جوابی کارروائیاں بھی ہر بار زیادہ مؤثر ہوتی جا رہی ہیں۔
زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں، چین کی حالیہ دو جوابی کارروائیوں نے امریکہ کے تیل، گیس، اور پک اپ جیسی "بے ضرر” مصنوعات سے آگے بڑھ کر امریکی زراعت کے کمزور حصوں کو ہدف بنایا ہے، جس میں مکئی، سویابین، اور گندم جیسی اہم فصلیں شامل ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ صدر ٹرمپ کو "درد اور تکلیف ” کا احساس ہو رہا ہوگا، اور وہ "ہنسنے اور رونے” کے درمیان والی کیفیت میں پھنس گئے ہوں گے۔امریکی کسان پوچھ سکتے ہیں: "ہمیں کیوں نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے؟ ہماری مکئی اور سویابین ٹرمپ کے ‘ٹیرف میجک ‘ کی بھینٹ کیوں چڑھ رہی ہیں؟” جواب بہت آسان ہے: چین کے سامنے ، جو زرعی مصنوعات میں دنیا کا سب سے بڑا خریدار ہے، امریکی زراعت ٹرمپ کے ٹویٹر اکاؤنٹ سے بھی زیادہ کمزور ہے۔مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ ٹرمپ کی ٹیم اب تک چین-امریکہ تجارت کی اصل نوعیت کو سمجھنے میں ناکام رہی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ چین کو سویابین کی ضرورت ہے، لیکن امریکہ کو سویابین بیچنے کی زیادہ ضرورت ہے۔ جب چین میں امریکی سویابین کی درآمد کی شرح 40 فیصد سے گر کر 22.8 فیصد ہو گئی، تو برازیل کے کسان، جنہیں چین سے بڑے آرڈر ملے، شاید وائٹ ہاؤس کو شکریہ کا خط بھیجیں گے۔
"دشمن کو 800 کا نقصان پہنچاؤ اور خود 1000 کا نقصان اٹھاؤ” والی یہ حکمت عملی سوچنے پر مجبور کرتی ہے کہ کیا ٹرمپ کے تجارتی مشیروں نے کوئی کریش کورس کیا ہے کہ "اپنے ملک کی اہم صنعتوں کو کیسے تباہ کیا جائے” ؟تاریخ سے ثابت ہے کہ ٹیرف کی جنگ کے دیوانے ہمیشہ رسوا ہوئے ہیں ۔ 1929 میں امریکہ کے سابق صدر ہربرٹ کلارک ہوور کے ٹیرف کے کرتب نے امریکی تجارت کو دو تہائی تک سکیڑ دیا تھا ۔ ییل یونیورسٹی کے تازہ ترین تخمینے کے مطابق، ٹرمپ کا ٹیرف کا توہم ،امریکی جی ڈی پی کو ہر سال 110 ارب ڈالر کا نقصان پہنچا سکتا ہے – یہ رقم ہر ایک امریکی کسان کو(Make America Bankrupt Again ) MABA یعنی "امریکہ کو دوبارہ دیوالیہ کرو” والی سرخ ٹوپی پہنانے کے لیے کافی ہے۔
ٹرمپ شاید یہ سمجھتے ہیں کہ ٹیرف ، پتھر کو سونا بنانے والی چھڑی ہے، لیکن حقیقی دنیا میں یہ” ہیری پوٹر” میں ہیری کے دوست "رون "کی خراب چھڑی کی طرح ہے جو صرف افراتفری پیدا کرتی ہے اور کچھ نہیں۔اس وقت جب چین ڈبلیو ٹی او کے قواعد اور متنوع درآمدی و برآمدی حکمت عملی کے ساتھ پُرسکون طریقے سے جواب دے رہا ہے، تو وائٹ ہاؤس کے "ٹیرف آفس” میں پریشان کسانوں کی دہائیاں ، بڑھتی ہوئی قیمتوں کی چیخیں اور مسلسل تبدیل ہونے والا "مبارک دن” ہی نظر آ رہا ہے ۔ چین تو پہلے ہی تجارتی جنگ کے دھوئیں میں تائی چی کنگ فو ) حملہ کرنے والی کی طاقت کو اسی کے خلاف استعمال( کی مہارت رکھتا ہے – اس لئے اس بار بھی یہ طے ہے کہ توہم پرست "ٹیرف گیمبلرز ” کے خلاف بہترین جواب ،ایک پرسکون اور فیصلہ ضرب ہوگی۔