اقبال مجیدی۔۔۔ایک جدید لہجے کا شاعر

0

ایک عظیم علمی خانوادے سے تعلق رکھنے والے اور کراچی کے صفِ اول کے شاعر جناب اقبال مجیدی 10 جون1955کو چٹاگانگ مشرقی پاکستان میں پیدا ہوئے ۔ آپ حضرت مبارک مونگیری کے سپوت تھے جو کہ خود بہت بڑے شاعر اور ادیب تھے۔ پیشہ کے اعتبار سے اقبال مجیدی انجینئر اور اردو کے لیکچرار تھے۔ آپ بلا کا شعر کہتے اور زیادہ تر ایک خاص انداز کا ترنم آپ کو مشاعروں میں انفرادیت بخشتا۔ اقبال مجیدی مشاعروں کی جان سمجھے جاتے تھے۔ آپ نے ہمیشہ شعر و ادب ، مذہب ، سیاست ، تاریخ اور سماجیات پر بات کی۔ ترقی پسند ہونا آپ کی شعریت سے جھلکتا تھا۔ ڈاکٹر وزیر آغا کہتے تھے کہ ادب کو کسی مخصوص نظرئیے کی لاٹھی سے ہانکنا دراصل اس تخلیق کے ساتھ نہ صرف زیادتی بلکہ تخلیق کے آگے بندھ باندھنے کے مترادف ہے۔ اقبال مجیدی بند نہیں باندھتے بلکہ ان کا شعر نئی جہتیں تلاش کرتا ہے۔

اقبال مجیدی جدید لہجے کے شاعر تھے اور ان کی فنی صلاحیت ہر مکتبہ فکر اور ہر نظرئیے کا پرچار کرتی ہے ۔ اس میں ترقی پسندی سے لے کر امن و محبت اور معاشرتی مسائل کا ہر نقطہ زیر بحث ہوتا ہے۔ وہ اپنی روایتی اقدار کو ساتھ لے کر چلتے ہیں ا ور اپنے عہد کی ذہنی اور نفسیاتی الجھنوں کا مشاہدہ کرتے ہیں۔ شاعر سماعت سے سب کچھ حاصل کرتا ہے۔ محد تالحد سماج کا مقروض ہوتا ہے۔ معاملات محبت ہوں یا دنیاوی پیچیدگیاں ، ماضی کی تلخ و شیریں حکایات ہوں یا فردا کے حسین خواب ۔ ان سب کی بابت اقبال مجیدی کا اپنا ایک خاص نقطہ نظر اور طریقِ بیان ہے ۔ اقبال مجیدی اپنی تخلیق کے ذریعے بہتر سماج کا خواب پیش کرتے نظرآتے ہیں۔ ان کے چند اشعار ملاحظہ کیجئے۔
اس کڑی دھوپ میں سائے کی توقع بے سود
ابر بھی سر سے جو گزرا تو گریزاں گزرا
ہر شخص یہاں جھوٹ کی چادر کو ہے اوڑھے
سچائی تجھے اوڑھنے والا نہیں ملتا

زردارہی ہر دور میں زردار بنا ہے
بے زر کو یہاں ایک نوالہ نہیں ملتا

اقبال مجیدی اپنے والد سے بہت متاثر تھے اور مشاعروں میں بھی ایک ساتھ شرکت کرتے ۔ والد کی وفات کے بعد تواتر کے ساتھ وہ ان کی یاد میں مشاعروں کو اہتمام اپنی ایک تنظیم ” حلقہء فکر جدید ” کے پلیٹ فارم سے کرتے رہے ۔ اپنے والد کے نام سے کراچی میں ایک سڑک ” شاہراہ مبارک مونگیری”کے نام سے منسوب کرائی۔ اقبال مجیدی نے کئی بیرون ملک مشاعروں میں شرکت کی ۔ انہوں نے جشن عالی میں شرکت کی جس کا اہتمام اردو سوسائٹی دبئی اور ابوظہبی نے کیا۔

انہوںنے دہلی ہندوستان میں منعقدہ "جنگ آزادی 1857″ شعری سمپوزیم میں شرکت کی ۔ اقبال مجیدی کو شام بہار ٹرسٹ انڈیا کے سالانہ مشاعرے جو کہ 1990, 1989 اور1995 ء میں دوہا قطر میں منعقد ہونے والے بین الاقوامی مشاعرے میں شرکت کرنے کا اعزاز حاصل ہوا۔ آپ کو 1994 ء میں آسٹریلیا کے کلائیڈ کیمرون کالج آف آئی ایل او ایجوکیٹر کورس کی طرف سے پیش کردہ ” دی پیشنٹ پوئٹ” ایوارڈ اور سالیڈیٹری ایوارڈ سے نوازاگیا۔ ان کے کچھ اشعار ملاحظہ کیجئے۔
عجب محرومیوں کا سلسلہ ہے
محبت سے بھی دل ڈرنے لگا ہے
خدا جانے اسے کیا ہو گیا ہے
کہ تنہائی میں اکثر بولتاہے
یقینا صحن تک آیا ہے کوئی
وگرنہ چاند کیوں ٹھہرا ہواہے
شہادت جو مری دیتا تھا ہر دم
وہ آئینہ بھی اندھا ہو گیا ہے
مجیدی ڈھونڈتے ہو تم ضیائیں
چراغِ حسن گھر میں جل رہا ہے

اقبال مجیدی کو ادبی سرگرمیوں کی فہرست 2007 میں پاکستان کے ساٹھ سالہ یوم آزادی کے موقع پر ملی نغموں کا مقابلہ جیتنے پر حکومت پاکستان کی جانب سے سرٹیفکیٹ اور مبلغ پانچ ہزار روپے بطور نقد انعام کی صورت میں نوازاگیا ۔ 2010 ء میں اقبال مجیدی گردے کے عارضے میں مبتلا ہو گئے ۔ ڈاکٹر نے ڈائلسز کروانے کا مشورہ دیا ۔ بچوں کے اصرار پر لندن آگئے ۔ یہاں ان کا کڈنی ٹرانسپلانٹ کا آپریشن ہوا ۔ ان کی ادبی سرگرمیاں لندن میں بھی جاری رہیں اور مسلسل مشاعروں میں شرکت کرتے رہے ۔ لیکن ناسازی طبیعت کی وجہ سے 6 ہفتے ہسپتال میں داخل رہے مگر آفاقہ نہ ہوا اور 25 مئی 2022 ء کو اپنے خالق حقیقی سے جاملے۔ (انا اللہ وانا علیہ راجعون)

آپ نے اپنے پسماندگان میں اپنی شریکِ حیات،دو صاحبزادیاں،ایک صاحبزادہ،دو داماد،ایک بہو،تین نواسے،ایک نواسی، ایک پوتی اور دو بڑی بہنوں کو چھوڑا۔
غبار غم تو ٹوٹا حشر بن کر
یہ میرا حوصلہ بکھرا نہیں ہوں
کوئی تو ہے جسے میری طلب ہے
خدا کا شکر ہے تنہا نہیں ہوں

آپ کے دو مجموعہ کلام ـ ” ذات 1996 ء اورـ” تمازت کا سفر” 2005 ء میں شائع ہوئے ۔ مجموعہ کلام ذات کا دیباچہ جون ایلیا اور احمد ندیم قاسمی نے جبکہ تمازت کا سفر کا دیباچہ ڈاکٹر حنیف فوق نے تحریر کیا۔

خدا تعالیٰ اقبال مجیدی کو جوارِ رحمت میں جگہ دے اور جنت میں اعلیٰ مقام عطافرمائے۔ آمین
از حضرت شہاب

Leave A Reply

Your email address will not be published.

error: Content is protected !!