بیٹھک کا عنوان داستان گوئی کے مرکزی خیال کی مناسبت سے نیرنگِ داستان گوئی تھا
بزمِ اُردو کے جنرل سیکریٹری ریحان خان کینیڈا سے آن لائن ہر بیٹھک کا حصہ بنتے ہیں
پروگرام کی نظامت فرزانہ منصور نے کی اور داستان گو سید ساحل آغا نے تین قصے سنائے
دبئی (طاہر منیر طاہر) بزمِ اُردو کی مسلسل روایت ماہانہ بیٹھک اپنے سفر کے نویں سنگِ میل تک پہنچ چکی ہے اور خاصی مقبولیت بھی پا رہی ہے۔ اِس ماہ کی بیٹھک کا عنوان داستان گوئی کے مرکزی خیال کی مناسبت سے نیرنگِ داستان گوئی تھا۔
داستان گوئی یا قصہ گوئی کا فن اِتنا ہی قدیم ہے جتناکہ زبان کا ارتقاء داستان گوئی انسان کا قدیم مشغلہ رہا ہے اور کسی نہ کسی صورت میں تقریباََ ہر قوم میں پایا جاتا ہےداستان کے لفظ کے ساتھ تصورات کی ایک رنگین دنیا آباد ہے۔ جب داستان کے الفاظ کانوں میں پڑتے ہیں تو بیتی ہوئی رنگین تصویریں آنکھوں میں پھر نے لگتی ہیں ۔داستان گوئی کے اس سحر اور اس فسوں کوبزمِ اُردو دبئی نے بھی نیرنگِ داستان گوئی کے نام سے پیش کرنے کی جسارت کی ہے
بیٹھک کا باقاعدہ آغاز بزمِ اُردو کے جنرل سیکریٹری ریحان خان کی بات سے ہوا جو کہ کینیڈا سے آن لائن ہر بیٹھک کا حصہ بنتے ہیں، انہوں نے مہمانوں کو خوش آمدید کہا اور ان بیٹھکوں کے سلسلے کو مل بیٹھنے اور اُردو کی بات چلتے رہنے کی کامیاب کوشش قرار دیا۔
پروگرام کی نظامت فرزانہ منصور نے کی اور ماہانہ بیٹھک کے بارے میں مختصراََ اور نیرنگِ داستان گوئی کے بارے میں تفصیلی تعارف کروایا۔
بابائے اُردو مولوی عبد الحق کی پیدائش کے ماہ کی مناسبت سے نصباح آغا نے بابائے اُردو مولوی عبد الحق کے بارے میں ایک مختصر مگر جامع مضمون پڑھا۔ مولوی عبد الحق کا اردو ادب میں بہت اعلیٰ مقام ہے ان کا ایک کارنامہ اردو زبان کی لغت کی تالیف و ترتیب ہے جو آج تک ایک نہایت مستند اور معیاری ادبی حوالے سے جانی جاتی ہے۔
محترم شاداب اُلفت، جو بزم کے دیرینہ رکن ہیں اور صا حبِ کتاب مصنف بھی ہیں انہوں نے داستان گوئی کے ارتقاء اور اِس فن کی ہر دلعزیزی کے بارے میں جامع اور دلچسپ مضمون پڑھا اور شرکائے محفل کی معلومات میں اضافہ کیا۔اور بہت داد بھی وصول کی۔
شاداب اُلفت کے مضمون کے بعد داستان گوئی کا دور شروع ہوا، ہندوستان سے تشریف لائے ہوئے، معروف داستان گو، سید ساحل آغا نے نشست سنبھالی ۔ داستان گو سید ساحل آغا متنوع اور متاثر کن شخصیت کے مالک ہیں، جہاں وہ بلند اخلاق اور حسن گفتار کے مالک ہیں، وہیں وہ دیگر داستان گو کے مقابلے میں اپنی انفرادیت بھی قائم رکھتے ہیں ۔ سید ساحل آغا کا کہنا ہے کہ اردو کی جو موجودہ صورت حال ہے، اس کی دو سطحیں ہیں۔جہاں تک لکھی جانے والی اردو ہے یعنی رسم الخط کا معاملہ ہے تو اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ زوال پذیر ہے۔ تاہم جہاں تک بولی جانے والی اردو ہے تو اس کا دائرہ روز بروز بڑھ رہا ہے۔ داستان گوئی تو بولی یا سنائی جانے والی شے ہے۔ اسی وجہ سے لوگ بہت زیادہ اسے پسند کر رہے ہیں۔ اس کا مستقبل بہت عمدہ دکھائی دیتا ہے۔
ساحل آغا نے تین قصے سنائے جو کہ حقیقت پہ مبنی تھے ان کی سحر انگیز داستان گوئی نے سامعین کو اپنے سحر میں جکڑے رکھا، خصوصاََ تقسیمِ ہند کے حوالے سے جو قصہ بیان ہوا اس نے سننے والوں کو آبدیدہ کر دیا، نشست ختم ہونے پر ہال کافی دیر تک تالیوں سے گونجتا رہا۔ داستان گوئی کی نشست کے بعد احیاء الاسلام نے حاضرینِ محفل کا شکریہ ادا کیا اور ماہانہ بیٹھک کی ٹیم اور بزمِ اُردو کے دیگر کارکنان جو اس بیٹھک کے انتظام و انصرام میں مدد گار رہے ان کا شکریہ ادا کیا۔
بزمِ اردو کی ان ماہانہ بیٹھکوں کی ایک خاص بات مہمانوں کا پاکستان ایسوسی ایشن دبئی کے بِرِک کیفے کے لذیذ سموسے اور بہترین چائے سے تواضع ہے، تمام مہمان چائے سے لطف اندوز ہونے کے ساتھ ساتھ داستان گوئی پہ بات کرتے نظر آئے ۔ بزمِ اُردو دبئی نے اس موقع پہ یادگار کے طور پہ بزمِ اردو اور داستان گوئی کی مناسبت سے بک مارکس بھی تقسیم کئے۔ بیٹھک کے اختتام پہ بزمِ اُردو دبئی یہ کہنے میں حق بجانب ہے کہ ان بیٹھکوں کا سلسلہ، ایک صحت مند رجحان کی طرف کامیابی سے گامزن ہے۔ اور آنے والے سامعین ان نشستوں کے توسط سے اردو کے قریب ہوتے نظر آتے ہیں۔