یوکرائن۔۔۔۔۔۔۔۔۔آؤ وقت کی طناب کھینچ ڈالیں ۔۔!!

0

سمندر کا پُر سکون کنارہ ۔۔۔۔
سرد موسم کا ٹھنڈے سورج کی باریک ریشمی تاروں جیسی نرم کرنیں ۔۔۔
اور برف باری کے حسین موسم میں سہ پہر تین بجے گھروں کی بتیوں کا جل اٹھنا ۔۔۔
خزاں کے بہترین رنگوں والے سوکھے پتے ۔۔۔۔
گھروں کی کنڈیوں تک کو ڈھک لینے والے بہار کے موسم کے خوشبو دار نازک پھول ۔۔۔۔
شہر کو ملانے والے پل کے نیچے سے گزرنے والے پانی پر ہمیشہ کے لئے ٹھہرا ہوا میرا عکس ۔۔۔۔
ایک باغ کے جھولے پر میری بیٹی کو بچپن ۔۔۔
یوکرائن کی سرزمین کو خوبصورت شہر اودیسا ۔۔۔۔۔
جہاں اس موسم میں پھولوں کی کیاریوں کو محبت سے سینچا جاتا ہے ۔۔۔
جہاں گھروں کے باغیچوں کو بہار کو خوش آمدید کہنے کے لئے مختلف پھولوں کے بیجوں سے آراستہ کیا جاتا ہے ۔۔۔۔
اور پھر چند ہی دنوں میں پھولوں کی مہکار کے درمیان ۔۔۔چائے کے ایک کپ پر ملاقات کی الفت بھری محفلیں سجائیں جاتی ہیں ۔۔

اور جب چند مہینے قبل یوکرائن کی زمین سے اظہار یک جہتی کے لئے مختلف ممالک نے اپنی اہم عمارات کو یوکرائن کے پرچم کے رنگ کی۔مناسبت سے نیلے اور پیلے رنگ میں رنگ دیا تھا ۔۔۔تو اس ملک میں گزرنے والی زندگی کی حسین یادوں کی محبت میں میرے دل اور آنکھوں کا رنگ بھی نیلے اور پیلے رنگ کی محبت میں ڈھل چکا تھا ۔۔۔۔

وہ منظر جو یوکرائن کی سر زمین پر میری آنکھوں نے دیکھے ۔۔۔وہ موجودہ مناظر سے بے حد مختلف تھے ۔۔۔۔یہ یوکرائن کی سرزمین سے میری محبت تھی۔۔۔کہ یہاں نکلنے والے سورج کی کرن ، گرنے والے بارش کے قطرے ، چلنے والی سبک گام ہوا ، سمندر کے ہر قطرے کے سکوت کے عوض میں نے ہر بار ” اودیسا ” کے نام سے پر سکون نظمیں صرف اس لئے تخلیق کیں کہ پڑھنے والوں کو اپنی آنکھ اور دل مہیا کر سکوں ،

میں اکثر خیالوں میں
اپنی آنکھیں چومتی ہوں
جنہوں نے وہ منظر دیکھے
جن کی کوئی قیمت نہیں
واپسی کے وہ رستے ناپتی ہوں
جو میرے قدم دور بہت دور لے آئے ہیں
سردی کے یخ موسم جب میری سوچ کے
آئینوں کے ہاتھ ٹھنڈے کر دیں گے
تو میں لفظوں سے آتش دان جلاؤں گی
اپنے قلم سے ادھورے قصے تصور کی آنکھ
سے مکمل کروں گی
اور سردی کی نرم گرم دھوپ میں
اپنا دل تاپوں گی

یہ 213 کا زمانہ تھا ۔۔۔جب میں نے یوکرائن کی زمین پر پہلی بار قدم رکھا ۔۔۔۔اس ملک نے اپنے دامن میں بہت سی تہذیبوں کو سمیٹ رکھا تھا ، یہ ملک یہاں کے رہنے والوں کے لئے امن کی علامت تھا، ہر ملک ، رنگ اور نسل کے افراد بغیر کسی تفریق کے زندگی گزارنے کا سامان کر رہے تھے۔۔۔۔ اور ہم بھی یوکرائن کے ساحلی شہر اودیسا پر برسنے والی خداداد خوبصورتی کے رنگوں سے خوابوں کے وہ نقش بُنے جنہیں کبھی لفظوں کی صورت دی گئی، کبھی کیمرے کی آنکھ میں محفوظ کیا گیا ۔۔۔۔

یوکرائن کے لوگ امن پسند اور دھیمے لہجے کے مالک ہیں ، محبت کے خمیر سے بندھے ہوئے ہیں ، وہ موسموں کی زبان سمجھتے ہیں ، بہار کی نرمی سے واقف ہیں ، خزاں کے رنگوں سے باتیں کرتے ہیں اور شام کی ٹھنڈک کو اپنے گالوں پر محسوس کرتے ہیں ۔۔۔۔اور یہ سب باتیں لکھتے ہوئے میرا دل انتہائی غمزدہ ہے ۔۔۔۔جنگ کے ماحول میں ۔۔۔جب اس سرزمین سے میں نے اپنے قدم الگ کئے تو واپسی کے اس سفر میں میرا دل سو ٹکڑوں میں بٹ گیا ۔۔۔۔!!!

اب جبکہ نیٹو کا سربراہی اجلاس ہونے جا رہا ہے ، یوکرائنی صدر ولادیمیر زیلنسسکی کی پوری کوشش ہے کہ یوکرائن کو نیٹو کی رکنیت حاصل ہو سکے ، جس سے مشرقی یورپ میں نیٹو اتحاد کو تقویت ملے گی ۔۔۔اور عام عوام اپنے ملک میں پہلے کی طرح امن کے خواہاں ہیں ، امن اور صرف امن !!!!!

Leave A Reply

Your email address will not be published.

error: Content is protected !!