ہماری معیشت کی تباہی آج کی کہانی نہیں بلکہ یہ ایک مسلسل کہانی ہے جو ہماری بد انتظامی کا مظہرثبوت ہے ایک وقت تھا ہم ہر سو ڈالر کی درآمد پر 12 اور پچیس فیصد ہوتا ہے، زرمبادلہ کی فرامانی تھی، کچھ قرضے لیکر آپنی دوکان چلاتے رہے، اب ہر 100ڈالر کی برآمدات پر 250 ڈالر کی درآمد کرتے ہیں ذرمبادلہ کے اتنے بڑے خصارے کو دنیا کی کوئی معیشت سہارہ نہیں دے سکتی جہاں برآمدات کیلئے کچھ نہ ہو اور درآمد کے لئے دروازے کھلے ہوں میں آجکل اسلام آباد میں ہوں ایک مشہور مول میں جانے کا اتفاق ہوا، اندر جو گہماگمی تھی وہ میں نے امریکہ کے کسی بڑے مول مین بھی نہیں دیکھی، وہاں جا کر احساس مشکل تھا کہ میرا تعلق ایک مخدوش معیشت سے جہا ملک کی کثیر آبادی کو دو وقت کی روٹی نہیں مل رہی، غریب خود کشی یا کرپشن کی طرف گامزن او ر اس بیچارے کی کیا کرپشن؟؟ کسی کا پرس ہی چھینے گا، موبائیل چھنے گا ۔
اسلام آباد کے مول میں نہائت مسکراتے، ہشاش بشاش چہرے ، ہاتھوں میں مہنگے داموں خریدے ہوئی چیزوں کے تھیلے،رش اتنا کہ آسانی سے چلنا محال ِ مال میں سب سے زیادہ تکلیف دہ بات یہ تھی کہ اکثر دوکانوں پر مختلف اجناس کی مختلف قیمتیں، نیچے تحریر ہے کہ made in america, made in germany, made in Turkey ساتھ ہی وہی چیز made in pakistanرکھی ہے متول طبقہ کی خریداری کا مرکز ہر گز made in pakistan والی اشیاء پر نہیں تھا۔ ہماری جیسی مخدوش اور تباہ حال معیشت کی موجودگی میں باہر کی درآمد شدہ چیزویں کیوں؟؟؟ ہمیں تو ڈالرز کی ضرورت ہے، اس ملک میں قانونی تجارت کیلئے ڈالرز کی اشد ضرورت ہے ایک ڈالر کے 267روپے مل رہے ہیں ہم چند ڈالرز کے عوض روپیہ لیکر تھیلوں میں بھر لیتے ہیں اور خوش ہوتے ہیں یہ کسی بے وقوفی سے کم نہیں۔ ہمارے پاس ایسے ہی کچھ نہیں بچا جو ہم برآمد کرکے ذرمبادلہ لا سکیں۔ اسکے بدلے گیہوں اور پیاز بھی اب درآمد کرتے ہیں اور بچے کچے ڈالرز اغیار کو دیکر آٹا لاکر مہنگے داموں فروخت کرتے ہیں مہنگا کرنے میں حکومت کا ہاتھ نہیں بلکہ درآمد شدہ اجناس پر لاگت ہی اتنی ہے، پہلے کہا جاتا تھا کہ حکومت کو معیشت کوسدھارنے کا شوق نہیں، کوئی پالیسی نہیں وغیرہ وغیرہ۔۔ اب اس الزام کو عوام اور وہ عوام جو صاحب ثروت ہیں انکا بھی اتنا ہی قصور ہے جنہیں درآمد شدہ چیزین پسند آتی ہیں،مراعات یافتہ طبقے کی بات رہنے ہی دیں چونکہ ان س محب وطنی کی امید ہی نہیں،کہا جات ہے کہ کئی ارب ڈالرز انہوں نے زخیرہ کرسکی جس وجہ سے مارکیٹ کی قلت ہے اور روپیہ سستا ہوگیا ہے اور روز بروز تنزیلی کی طرف گامزن ہے۔
یہ وقت آزمائش کا ہے۔معاملات کی سنگینی کا احساس کریں۔سیاسی وابستگی سے بالاتر ہو کر اپنے ارد گرد دیکھیں۔ جو جماعت آپ کو پسند ہے یا جو پسند نہیں ان کے بارے میں فیصلہ انتخابات والے دن کریں۔اس وقت کا سوال سنیں۔کہیں دنیا کے ساتھ ہم سب بھی تماشائی بن کر اس چھت کے گرنے کا انتظارتو نہیں کر رہے جس کے نیچے ہم پناہ گزین ہیں۔اگرخدانخواستہ ملک ڈیفالٹ کر گیا تو ہماری کیا حیثیت ہوگی؟کیا پہچان ہوگی؟جن کو عطا کیا گیا ہے ان کا ہی امتحان ہے،غریب تو مہنگی اشیا خرید کر اور ہر شے پر ٹیکس دے کر قربانی دیتا آرہا ہے۔اس وقت صاحب حیثیت لوگوں کو مٹی کی پکار سننی ہے۔کچھ لوگوں کی بے حسی نے بے بسی کو ہماری تقدیر بنا رکھا ہے۔وزیراعظم صاحب ہنگامی صورت حال کا اعلان کریں۔ اپنی ذات سے اخراجات کی کمی اور سادگی کا آغاز کریں۔مگر وہاں بھی کانوں میں روئی ڈلی ہے وزیر اعظم، صدر کے ہمراہ امہنگی گاڑیون کا ایک قابلہ روان دواں ہوتا ہے اور یقینا یہ گاڑیان پیٹرول کے بغیر ہرگز نہیں چلتیں، پر تعیش اشیاء کی درآمد فوری بند کریں، یہ ملک کی موجودہ صورتحال میں ملک کی تباہی سے کم نہیں،آئی ایم ایف کے چنگل میں پھنس کر مکمل تباہی کے بناء واپسی ممکن نہیں، ہر حکومت آئی ایم سے قرض لیتی ہے ہمارے لئے آئی ایف کی شرائط زیادہ ہونے کی وجہ گزشتہ تحریک انصاف کی امین و صادق حکومت کی جانب سے آئی ایم ایف سے دھوکہ دہی، یعنی انہوں نے آئی ایم ایف کو بھی ہاتھ دکھا دیا۔ قرض لینے والے ممالک کے پاس مضبوط معیشت کی وجہ سے قرض کی واپسی کا بھی پلان ہوتاہے مگر ہم تو قرض نہیں بلکہ اسکا سود واپس ادا کرتے ہیں وہ بھی مزید قرض لیکر آئی ایم ایف جو ”معاشی اصلاحات“ تجویز کر رہا ہے، وہ پاکستان کی معیشت کو سنبھا لہ دینے کیلئے نہیں بلکہ کسی عالمی ایجنڈے سے جڑی ہوئی ہیں کیونکہ آئی ایم ایف ایک ایسا ادارہ ہے، جو ورلڈ آرڈر کے تحت چلتا ہے۔ یہ ورلڈ آرڈر امریکہ اور اس کے حواریوں کا بنایا ہوا ہے۔
پاکستان نے ہمیشہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کا آگے بڑھ کر ساتھ دیا۔ خصوصاً پاکستانی افواج نے اس حوالے سے بہت اہم کردار ادا کیا۔ ایک زمانہ تھا، جب امریکہ اور اس کے مغربی اتحادیوں کو اس بات کی ضرورت تھی کہ پاکستانی افواج زیادہ سے زیادہ مضبوط ہوں۔ یہ سرد جنگ کا زمانہ تھا۔ کمیونزم کی بڑھتی پیش قدمی کو روکنے کیلئے پاکستان کو دو عالمی دفاعی معاہدوں میں شامل کیا گیا۔ یہ دو عالمی معاہدے ساؤتھ ایسٹ ایشیاء ٹریٹی آرگنائزیشن (سیٹو) اور سینٹرل ٹریٹی آرگنائزیشن (سینٹو) یا معاہدہ بغداد تھے۔ پاکستانی افواج نے اس خطے میں امریکی مفادات کا تحفظ کیا۔ سرد جنگ کے خاتمے کے بعد پاکستانی افواج اگرچہ تنظیم معاہدہ شمالی بحراوقیانوس (نیٹو) کا حصہ تو نہیں تھیں لیکن افغانستان میں دو دفعہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی جنگوں میں نیٹو افواج کا بھرپور ساتھ دیا۔ امریکہ نے ہی اپنی ضرورت کے تحت پاکستان کی آبادی کے تناسب سے زیادہ بڑی افواج بنانے کی حوصلہ افزائی کی اور بیانیہ یہ دیا گیا کہ پاکستان کو بھارت کا مقابلہ کرنا ہے، جو پاکستان کا سب سے بڑا دشمن ہے۔ امریکہ نے ہی اپنی ضرورت کے تحت پاکستان کو سیکورٹی اسٹیٹ بننے کی طرف دھکیلا، جہاں جمہوریت نہ پنپ سکی۔ پاکستان کو اسی راستے پر چلتے رہنے کیلئے عالمی مالیاتی اداروں کا طفیلی بنا دیا گیا۔ اب آئی ایم ایف سے پاکستان شاید 23 واں پیکیج حاصل کرے گا، جس کے بارے میں ابھی تک وثوق سے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو اتنی بڑی اور مضبوط پاکستانی افواج کی ضرورت نہیں رہی اور اگر نہیں رہی تو کیا یہ بڑی اور مضبوط افواج امریکہ کے لئے پریشانی کا سبب بن سکتی ہیں؟ اس سوال کا جواب آئی ایم ایف کی ان شرائط سے مل جائے گا، جو پیکیج دینے کی صورت میں سامنے آسکتی ہیں۔ اگر اس پیکیج میں فوج کا حجم کم کرنے یا دفاعی اخراجات کم کرنے کی شرط نہ لگائی گئی تو اگلے ایک دو سال میں نئے پیکیج کیلئے یہ شرط ضرور ہو گی۔ خدشہ ہے کہ صرف فوج کا حجم کم کرنے کی شرط نہیں ہو گی۔ اب بھی وقت ہے کہ ہم سنبھل جائیں۔ اب ہمیں اعتراف کرنا پڑیگا کہ حالات کے ذمہ دار ہمارے حقیقی حکمران ہیں، جنہیں ہم اسٹیبلشمنٹ کہتے ہیں۔ ابتدا سے ان کی بنائی گئی غلط پالیسیاں نہ صر ف ملک اور عوام کو بلکہ خود اسٹیبلشمنٹ کو دلدل میں دھنساتی چلی گئیں۔ ہماری عدلیہ، ہمارا میڈیا، ہمارے دانشور اور ہمارے سیاست دان شریک مجرمان ہیں۔ جن سیاست دانوں نے پاکستان کو اس راہ سے ہٹانے کی کوشش کی، اس نے اس کی خوف ناک قیمت ادا کی اور مزید کرینگے۔۔ عوام پر زیادہ معاشی بوجھ ڈالنے کی بجائے ادارے اپنے اخراجات میں رضاکارانہ کمی کریں۔ ورنہ غریب عوام کی اکثریت تو پہلے ہی حالات کو بھگت رہی ہے، آزمائش اب کسی اور کیلئے ہو گی۔