ملکی معیشت تباہی کے دہانے پر پہنچ چکی ھے، معیشت اُسی وقت مستحکم ہو سکتی ھے جب منتخب حکومت اقتدار میں آئے۔ پاکستان میں عدم استحکام کی اصل وجہ کر ملکی معیشت منجمد ہونے لگی ھے،موجودہ صورتحال کو دیکھتے ہوئے اسٹیٹ بینک نے مالیاتی پالیسی کا اعلان پچھلے دنوں کیا تھا اور شرح سود 22 فیصد مقرر کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ اسٹیٹ بینک اُس وقت شرح سودمیں اضافہ کرتی ھے جب اسٹیٹ بینک کے پاس روپوں کی کمی واقع ہو جاتی ھے۔ یعنی ملک میں گردشی روپے اسٹیٹ بینک سے زیادہ ہو جاتے ہیں۔
ایسے حالات اُس وقت پیدا ہوتے ہیں جب حکومت کے ٹیکس کی آمدنی میں کمی واقع ہو جاتی ھے۔ٹیکس میں کمی اس وقت واقع ہوتی ھے جب ملکی صنعتوں تنزلی کا شکار ہو جاتی ہیں۔اسکی پہلی وجہ پیداواری لاگت میں اضافہ ہو جائے جیسے گیس اور بجلی کی قیمتوں میں اضافہ کی وجہ کردوسری وجہ ملک کو سیکورٹی کا مسئلہ درپیش ہو اور تیسری وجہ ملک میں سیاسی عدم استحکام ہو۔موجودہ صورتحال میں ملک پچھلے دو سالوں سے سیاسی عدم استحکام کا شکار ھے۔
سرمایہ داروں کی عدم دلچسپی نے صنعتی ترقی میں سرمایہ کاری روک دی ھے بلکہ بہت سی صنعتیں بند ہو گئی ہیں۔ مزدور بے روزگار ہو گئے ہیں جس کی وجہ کر اسٹریٹ کرائم میں خاطر خواہ اضافہ ریکارڈ کیا گیا ھے۔ سرمایہ داروں نے اپنے سرمایہ کو اسٹاک ایکسچینج اور کرنسی مارکیٹ میں لگانا شروع کر دیا ھے جس سے حکومتی آمدنی میں مسلسل کمی واقع ہو رہی ھے۔ ان حالات میں بیرونی سرمایہ کاری نہ ہونے کے برابر ہو گی۔
حکومت کے پاس ملکی اخراجات کو پورا کرنے کے لیے تین راستے ہوتے ہیں کرنسی نوٹ مزید چھاپنے لگے۔ اس کے منفی اثرات افراط زر میں مزید اضافہ، دوسرا راستہ حکومت اپنے اثاثے فروخت کرنا شروع کر دے ان حالات میں سرمایہ دار موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کم قیمت میں خرید لیتے ہیں۔ حکومت کے پاس آخری راستہ یہی بچتا ھے کہ شرح سود میں اضافہ کر دے ۔ عام آدمی اور چھوٹے سرمایہ دار اپنی رقم بینک میں جمع کروا دیتے ہیں اور بھاری شرح سود حاصل کرتے ہیں۔ وقتی طور پر حکومت بگڑتے ہوئے حالات پر قابو پا لیتی ھے۔
اگر مستقبل کی منصوبہ بندی اور معاشی اصلاحات جامع منصوبہ بندی کے تحت بنائے گئے ہوں ، یہ اسی وقت ممکن ھے جب نمائندہ حکومت برسرِ اقتدار ہو۔ الیکشن کمیشن واضح طور پر الیکشن کی تاریخ کا اعلان نہ کرے تو معاشی حالات مزید تباہی کا شکار ہو جائیں گے۔اسٹیٹ بینک کے ڈپٹی گورنر نے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی میں ایک بیان دیا ھے۔ حکومت عوام کے پانچ لاکھ روپے تک کی ذمہ داری لیتی ھے جو انہوں نے بینکوں میں جمع کرائے ہوئے ہیں۔ اس بیان نے ملکی معیشت کی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیا ھے۔ شکر ھے میڈیا پر اس خبر کو خاموشی کے تالے لگا دیے گئے ہیں ، مگر عوام نے اس پر ردعمل دیتے ہوئے بینکوں سے رقم نکلوانا شروع کر دیا ھے۔
انٹیلیجنس رپورٹ کے مطابق ملک میں روپوں کی گردش میں مزید کمی واقع ہوئی ھے اور اسمگلنگ کے ذریعے بیس سے پچیس فیصد پاکستانی کرنسی افغانستان اسمگلنگ کی گئی ھے۔ ان حالات میں حکومت نے افغان مہاجرین کا مسئلہ کھڑا کر دیا ھے ،پاک افغان تعلقات میں کشیدگی بڑھ رہی ھے۔ حکومت کو چاہیے حالات کی نزاکت کو سمجھے سب سے پہلے پاکستانی کرنسی کو واپس پاکستان میں لانے کے اقدامات کرے۔ ایک طرف شرح سود میں اضافہ کرتے رہیں گے اور دوسری طرف کرنسی نوٹ چھاپ کر افراط زر میں اضافہ عوام پر مہنگائی کا ایک اور طوفان وارد ہو جائے گا۔
ایسے حالات میں عوام حکومت کے خلاف احتجاج شروع کر دے گی، قانون کو ہاتھ میں لے گی اور ملک میں سیکورٹی ہائی الرٹ ہو جائے گی ملک کی مشرقی اور مغربی سرحدوں کی صورتحال پہلے ہی غیر یقینی ہیں انڈیا کشمیر میں جنگی مشقیں کر رہا افغانستان کے ساتھ مسلسل حالات کشیدہ ہو رہے ہیں بلکہ سرحدوں پر جھڑپوں کی اطلاعات موصول ہو رہی ہیں۔ دانش مندی کا تقاضا یہی ھے صاف اور شفاف انتخابات کرائے جائیں اور اقتدار عوامی نمائندوں کے سپرد کر دیا جائے تا کہ ملک کو درپیش مشکلات کا سیاسی نکالا جا سکے۔