بھرچونڈی شریف سے مدینہ کی خوشبو

0

کرن فاطمہ کو قبول اسلام پر مبارک باد دیتا ہوں
میاں مٹھا میاں جاوید اور میاں نور کو مبارک باد

جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ جبری اسلام قبول کیا، میں نے اپنی آنکھوں سے پیر بھر چونڈی شریف میں قبول اسلام کی وہ پر رونق محفل دیکھی اور اس مسلمان بچی کو سر پہ ہاتھ رکھے اس کو کہا کہ آپ اسلام آباد آؤ آپ کو مری کی سیر کرائیں گے، آپ ہماری بیٹی کو مبارکباد بھی پیش کی گرمیوں کہ ایک دن میں مرچونڈی شریف میں پہنچا اور اتفاق سے اس دن ایک ہندو ناری نے اسلام قبول کرنا تھا اس کے والدین کے ساتھ قبیلے کی تقریباً40 50 عورتیں اور مردوں نے اس لڑکی کی بہت منتیں سماجتیں کیں کہ اپنا دھرم نہ چھوڑے اس کا باپ اپنے لخت جگر کو رو رو کے کہہ رہا تھا کہ آپ اسلام نہ قبول کرو لیکن وہ لڑکی مان نہیں رہی تھی کتنی منتیں ترلے اور سندھی زبان مجھے تھوڑی بہت آتی ہے اس وقت ہمارے ساتھ ایک نئے دوست جو صحافی تھے اور وہاں کے سندھی اخبارات میں ان کے بہت سے کالم چھپتے تھے۔

میں نے خود ان ہندو عورتوں سے پوچھا کہ کیا آپ نے اپنی بیٹی سے بات کر لی اور اس بچی سے بھی سوال جواب کیا ہے تو اس نے کہا کہ میں بڑی رضا و رغبت سے اسلام قبول کر رہی ہوں یہ بہت سی این جی اوز جو اپنا پیٹ بھرتی ہیں اس کمائی سے کہ پاکستان کو ب** کیا جائے تو انہیں نہیں پتہ کہ ان کے اپنے آبا و اجداد مسلمان ہوئے تھے اور کیا انہیں نہیں پتا کہ انگریز دور میں مشینری آئی اورانہوں نے کتنے ہندوؤں کو عیسائی بنایا میں گجرانوالہ باغوان پورہ کی اس مسیحی چرچ کی بات کروں گا نمبر55 میں دیکھا کرتا تھا کہ شہر کی سڑکوں پر صرف انہی کی گاڑی دوڑتی نظر آتی تھی اور 25 دسمبر کے دن وہ سب کی دعوت کرتے تھے یہ لوگ اس سے پہلے اس معاشرے میں جو پاکستان اور ہندوستان میں رہنے والے یہ لوگ ان کو چوڑا کہتے تھے تو ہم نے تو کبھی یہ بات نہیں کی کہ مسیحی مشنری جبری طور پر عیسائی بناتے ہیں احمد دیدار جن دنوں جدہ میں تھے تو انہوں نے کہا تھا کہ آپ بہت چیختے چلاتے ہو اور کہتے ہو کہ پاکستان اسلام کا قلعہ ہے جاؤ اس قلعے کی دیوار کو محفوظ کر لو کہ سیالکوٹ گوجرانوالہ، فیصل آباد میں اس قلعے میں مشنریز نے سوراخ کر لیا ۔

ان لوگوں نے انسانیت کی فلاح و بہبود کے نام پر ہسپتالوں کو اپنے نشانے پہ رکھا ہوا ہے اور بہت سی نرسیں اور معاون کرنے والا عملہ اتنی تعداد میں پیدا کر دیا کہ آپ اس کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا پھر ٹیکنیکل انسٹیٹیوٹ قائم کیے اور اس کے بعد اسلام آباد اور کراچی میں بیٹھے ہوئے سفارت خانوں میں انہی لوگوں کی اکثریت یقین کریں ہمیں کوئی اعتراض نہیں کہ ہمارے مسیحی بھائی امن سے رہیں پیار سے رہیں یہ ان کا اپنا ملک ہے پاکستان کی سالمیت کے لیے انہوں نے بہت اچھا کردار ادا کیا اے ار کارنیلیس نے آئین بنانے میں بہت اچھا کردار ادا کیا ہے ہم اسے اقلیت نہیں کہتے اسے پاکستانیت کا نام دیتے ہیں لیکن ہمیں یہ تو نہ طعنہ دیا جائے کہ اسلام تلوار کے زور پہ پھیلا ہے اور پیر پر چونڈی اپنے گھر میں جبری طور پر مسلمان کر رہے ہیں میں نے ان کے معاملات کو بڑے قریب سے دیکھا یہ اسلام کی ترویج کے لیے کبھی اسلام آباد کی عدالتوں میں پیش ہوتے ہیں باقی رہی بات ان کے معاشی معاملات بھی اتنے ٹھیک نہیں ہیں جتنے ان این جی اوز والوں کے ہیں میں نے سنا ہے این جی او کی کچھ مالک کی عورتیں ان کے دبئی میں پلازے بھی ہیں آپ کو پیسہ ملتا ہے آپ کو دولت ملتی ہے کہ جاؤ ٹیلی ویژن کے پروگراموں میں جا کر جبری مذہب تبدیلی کی بات کرو ایسے لوگ ہر پارٹی میں موجود ہیں۔

میں نام نہیں لینا چاہتا تحریک انصاف میں بھی ایسے لوگ شامل ہیں، پاکستان مسلم لیگ نون میں بھی، اور پیپلز پارٹی میں بھی، مجھے ایک مارننگ شو میں شرکت کا موقع ملا وہاں پہ ایک خاتون جو سعودی عرب سے پڑھ کے آئی تھی، انہوں نے سعودی ابایہ پہنا ہوا تھا اور میرے ساتھ تھی سعدیہ کمال جو مشہور صحافی ہیں اور سرائیکی وسیب کی ایک جانی پہچانی شخصیت ہیں سعودی پلٹ جس کی آواز سے یہ ظاہر ہو رہا تھا کہ وہ کسی اسی طرح کی ذات خیال عورت کی آواز تھی اور جب میں نے اس سے برچونڈی شریف کا وہ واقعہ بیان کیا اس نے اس کی سچائی پر ایک سوال کھڑا کر دیا بعد میں میں نے وہ تصویر بھی اینکر کو بھجوا دی اللہ کا دین پھیل کے رہے گا اور ہر جگہ ہر کونے میں یہ دین پھیلا کرے گا یہ افریقہ اور بے شمار ملکوں میں جو مشنری کام کر رہے ہیں وہاں پر دین کی تبلیغ نہ ہونے کی وجہ سے وہ لوگ اسلام سے محروم رہ گئے بدقسمتی یہ ہے کہ پاکستان کے قادیانی وزیر خارجہ نے سبز افر اللہ خان نے ان علاقوں میں قادیانیت کے پھیلاؤ میں بھی بڑا کردار ادا کیا ہے یہ وہی سرزفراللہ خان ہیں جنہوں نے قائد اعظم کا جنازہ نہیں پڑھا تھا کہتے ہیں کہ انہوں نے کہا تھا کہ یا میں مسلمان ہوں یا قائد اعظم تو پھر انہوں نے جنازہ نہیں پڑھا میں 2012 میں جرمنی کے شہر فرینکفرٹ میں گیا تھا۔

وہاں مجھے ایک دیسی فیملی سے ملاقات کا موقع ملا ان لوگوں کو سیاسی پناہ دی گئی تھی اور وہ مشہور واقعہ اس کا سبب بنا تھا کہ جب چند مولوی حضرات نے یہ الزام لگایا تھا کہ ان لوگوں نے قرآن جلایا ہے اس کے بعد بہت سے لوگ جرمنی پہنچ گئے تھے عین ممکن ہے کہ پیسہ کمانے والے ایجنٹ حضرات اس قسم کے واقعات کے پیچھے ہوتے ہیں اور مجھے آج پھر احمد دیداد کی بات یاد آئی کہ پاکستان کو بچا لیجئے یقین کریں اور چونڈی شریف کے گھروں میں کام کرنے والی ہندو عورتیں کبھی انہوں نے جبر نہیں کیا میاں جاوید صاحب نے مجھے بتایا کہ افتخار صاحب ہمارے گھروں میں کام کرنے والی عورتیں اپنی مرضی سے کام کرتی ہیں اور وہ ہندو ہیں اور ساتھ کے چھوٹے موٹے گھروں میں رہنے والے ہندو پوری ان کی پناہ میں تو یہ جو بات آپ سے میں کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ اللہ کے پیارے دین کو لوگوں نے قبول کرنا ہے تو کیا ہم بحیثیت مسلمان اور پاکستانی ان لوگوں کو ب** کریں گے۔

میں نے ایک بات کی تھی کہ یہ این جی اوز پیسہ بنانے کے لیے کام کر رہی ہیں اور ان کے اوپر نظر رکھنا ہمارا فرض بنتا ہے چوتھی نے سارے علی خان ہیں اپنے وزارت داخلہ میں بہت اچھا کام کیا تھا کہ انہوں نے بہت ساری این جی اوز پر پابندی لگائی بہت سارے لوگ روشن خیالی کا نام دیتے ہوئے اب اسمبلیوں میں لاتے ہیں سینیٹ میں ان کو نمائندگی دی جاتی ہے اور یہ بہت ضروری ہے میں نے ان لوگوں سے یہ اپیل بھی کرنی ہے کہ اگر آپ سچے پاکستانی ہیں تو خدارا اپنے عیسائی بھائیوں سے مسلمانوں کی جان کی امان چاہنے کے لیے اپنا کردار ادا کریں بہت مارا ہے آپ کی عیسائی حکومتوں نے ایک صلیبی جنگ کی حیثیت سے راک کا بیڑا غرق کیا گیا دو ناکام بلڈنگوں کو گرا کر پورے افغانستان اور پوری دنیا کے مسلمانوں کا بیڑا غرق کر دیا اکیلے افغانستان میں 10 لاکھ سے زیادہ شہید ہوئے اور زم یہ تھا کہ اس ملک میں ہمارے ملک کی دو بلڈنگوں کو گرایا ہے جس ملک میں ٹیکنالوجی ہے ہی نہیں اس پہ الزام لگا دیا گیا۔

بہرحال میں اپنے کالم کے اختتام پہ میں مٹھا میاں جاوید اور میاں نور صاحب کا شکریہ ادا کرتا ہوں اور یہاں پہ سوال اٹھاتا ہوں کہ جس طرح مشنری لوگوں کا سپورٹ کرنے کے لیے پوری دنیا آگے آئی ہوئی ہے اور ایک عرصے سے لوگوں کو عیسائی بنا رہی ہے تو ہمارا کام نہیں ہے اس قسم کی درگاہ کو بھی اسی طرح مدد کریں جس طرح دنیا پادریوں کی مدد کرتی ہے اور کیا ہم اتنے مجبور ہیں کہ ہم اس قسم کا کام بھی کرتے ہیں تو چھپ کے کرتے ہیں میری درخواست ہے کہ پاکستان کی اکثریت کو اقلیتوں کی طرف سے اس قسم کی زیادتی سے محفوظ رکھا جائے، پاکستان زندہ باد

Leave A Reply

Your email address will not be published.

error: Content is protected !!