وہ اپنے بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹا تھا۔حارث،عمار صاحب کی آخری اولاد تھی جو دو بیٹوں اور دو بیٹیوں کے بعد پیدا ہوا تھا۔حارث کی عمر اس وقت فقط چھ سال تھی جب ایک کار حادثے میں اس کی ماں اللہ کو پیاری ہو گئیں اور وہ بچپن میں ہی یتیم ہو گیا۔عمار صاحب کی وجاہت اور سخت لہجے کی وجہ سے خاندان بھر میں ہر کوئی ان سے ڈرتا تھا۔حارث کی کا مشکل دور اس وقت شروع ہوا جب اس نے چچا زاد سے شادی سے انکار کرنے پہ گھر سے نکال دیا گیا۔اس وقت اس کی عمر صرف بیس سال تھی۔اس کی چچازاد سے نسبت خاندانی رسم و رواج کے مطابق کم عمری میں ہی طے کر دی گئی تھی لیکن جب اس نے اپنی عمر کی اٹھارہ بہاریں دیکھ لیں تو اسے اس بات کا ادراک ہوا کہ کس طرح اس کے پاؤ گے روایات کی زنجیر کے ساتھ کم عمری میں ہی باندھے جا چکے ہیں اور اس کی نسبت ایک ایسی لڑکی سے طے کر دی گئی جو عمر میں اس سے سات سال بڑی تھی۔اس کی تعلیم بھی محدود تھی اور وہ ساتویں کلاس سے آگے نہ بڑھ سکی۔اسے گھر سے بے دخل ہوئے دس سال کا عرصہ بیت چکا تھا۔زندگی کے اتار چڑھائو سے گزرنے کے بعد جب اس کی زندگی کچھ سنبھل گئی تو وہ کینسر جیسے موذی مرض میں مبتلا ہو گیا۔حارث اس وقت آنکھوں میں آنسو سجائے ہسپتال کے بیڈ پہ زندگی کی آخری سانسیں لے رہا تھا۔ڈاکٹرز نے تین سال کے مسلسل علاج کے بعد اسے جب لاعلاج قرار دیا تو اس نے بالکل ہی امید چھوڑ دی تھی۔ڈاکٹر سلطان اس کے دوست اور اس کے مالک کے بیٹے تھے۔حارث کو کینسر کی تشخیص کے بعد جب آخری اسٹیج پہ پہنچ جانے کا ادراک ہوا تو اسے ماضی کی تکالیف کم ہوتی دیکھائی دیں۔اس دم موت سے بڑھتی ہوئی قربت اسے کسی نعمت سے بھی کم نہ لگی کہ آخر سب تکالیف سہنے کے بعد اس کی روح پرواز کر جائے گا۔ اس نے لاعلاج قرار دینے کے بعد ہسپتال سے چھٹی مانگی تھی لیکن ڈاکٹر سلطان کے اصرار پہ اسے مجبورا رکنا پڑا۔
"میڈیکل سائنس اتنی ترقی کر چکی ہے کہ اب کینسر کا آخری اسٹیج پہ بھی علاج ممکن ہو سکے گا،تم تسلی رکھو اور پراعمتاد رہو،تمہیں کچھ بھی نہیں ہو گا”ڈاکٹر سلطان نے اٹھائیس سالہ حارث کو مطمیئن کرنے کی کوشش کی۔
"میرے آخری وقت پہ تو مجھ سے سچ بولو سلطان،مجھے کیوں زندہ رہنے کی جھوٹی تسلی دے رہے ہو”وہ تلخی سے مسکرایا۔
"اس بیماری کو اپنے آپ پر تم نے خود ہی مسلط کر لیا ہے،اگر تم اس بیماری کے سامنے ہمت نہ ہارتے تھے تو اب تک تم مکمل طور پر صحت یاب ہو چکے ہوتے”ڈاکٹر سلطان سنجیدہ تھے۔
"یہ بیماری میرے لئے نعمت ہے سلطان،میں نے اسے نعمت سمجھ کر قبول کیا ہے”اس نے اطمینان کا اظہار کیا۔
"تم بہت زیادہ منفی سوچ رکھنے والے بن چکے ہو،اگر تم نے اپنا گھر بسا لیا ہوتا تو شاید تمہیں ایسی بیماری نہ لگتی اور تم مکمل ٹھیک ہو چکے ہوتے”ڈاکٹر سلطان نے اس سے شکوہ کیا۔
"اس لفظ شادی نے ہی تو میری زندگی برباد کی ہے ڈاکٹر سلطان،شاید تم میرا ماضی بھول چکے ہو لیکن مجھے ماضی کا ہر لمحہ یاد ہے”حارث نے درد بھرے لہجے میں اس کی طرف دیکھا تو ڈاکٹر سلطان نے خاموشی اخیتار کر لی۔ڈاکٹر سلطان اسے اپنے آخری وقت میں کسی نہ کسی انداز میں خوش رکھنے کی کوشش کر رہا تھا لیکن وہ جانتا تھا کہ حارث کبھی بھی نہیں مسکرائے گا،اس نے حالات کی سنگینیاں اس وقت دیکھیں جب اس کے والدین اور خاندان بھر نے اس سے ناطہ توڑ لیا تھا۔
دن ڈھل رہا تھا اور آسمان پہ دھیرے دھیرے کم ہوتی روشنی مغرب کا وقت ہونے کی نوید سنا رہی تھی۔وہ ایف ایس سی میں کامیابی کے باوجود میڈیکل میں داخلے کے لئے میرٹ کے مطابق نمبر حاصل نہ کر سکا لیکن اس کے مارکس اتنے اچھے ضرور تھے کہ وہ دنیا کے کسی بھی ملک میں میڈیکل کی تعلیم حاصل کر سکتا تھا۔حارث اس وقت ہاتھ میں رزلٹ کارڈ پکڑے اپنے والد عمار صاحب کے سامنے کھڑا تھا۔اس کے دونوں بھائی طلحہ اور صائم بھی باپ کے ساتھ صوفے پہ براجمان تھے۔
"بابا،مجھے میڈیکل کی تعلیم کے لئے روس جانا ہے”اس نے عمار صاحب کو مخاطب کیا۔
"میں اتنی طاقت رکھتا ہوں بیٹا کہ پاکستان میں ہی کسی پرائیوٹ میڈیکل کالج میں تمہیں تعلیم دلوا دوں،مگر میں نے کچھ وقت پہلے تم سے ایک بات کی تھی جسے سنتے ہی تم نے انکار کر دیا تھا”عمار صاحب نے اس کا رزلٹ کارڈ دیکھ کر اپنا مدعا پیش کیا۔
"کون سی بات بابا”اس نے سوالیہ نظروں سے دیکھا۔
"شادی،تمہیں چچازاد صفیہ سے شادی کا کہا تھا”انہوں نے بارعب انداز میں اپنی بات دھرائی۔
"نہیں بابا،میں شادی نہیں کر سکتا،خاص طور ایسے چچا کے گھر تو بالکل بھی نہیں جو مجھے سخت ناپسند کرتے ہیں”حارث نے نفی میں سر ہلایا۔
"کیا تم خاندان سے باہر شادی کرنے کا انجام جانتے ہو حارث”اب کی بار بڑا بھائی عثمان اس کی طرف متوجہ ہوا۔
"آپ بیچ میں مت بولیں بھائی،آپ میرے باپ نہیں ہیں۔اگر آپ اپنا حق نہیں لے سکتے تو کم از کم مجھے تو غلام مت بنائیں”بڑے بھائی کی بات سن کر وہ سیخ پا ہو گیا۔
"ماں باپ کی بات نہ ماننا نافرمانی ہے اور تم اس وقت نافرمان ہو چکے ہو”منجھلے بھائی صائم نے بھی گفتگو میں مداخلت کی۔
"فرما برداری کیا ہوتی ہے آپ مجھے یہ مت سکھائیں،اگر اپنا حق لینے کی وجہ سے میں نافرمان ہو جاتا ہوں تو میں نافرمان ہی سہی مگر میں خاندان میں کبھی شادی نہیں کروں گا”وہ انکار پر مصر تھا تو عمار صاحب اچانک غصے میں آ گئے۔
"ہمارے خاندان میں ہر فیصلہ بڑے کرتے ہیں اور اس خاندان کا بڑا میں ہوں۔اگر تم یہاں شادی نہیں کرو گے تو اسے بغاوت تصور کیا جائے گا کیونکہ ہمارے نزدیک خاندان سے باہر شادی کرنا خاندان سے بڑی بغاوت ہو گی حارث،تم یہ بات یاد رکھنا کہ تمہارا کسی قسم کا انکار تمہیں تباہ کر سکتا ہے”عمار صاحب نے اپنے سب سے چھوٹے بیٹے کو سخت الفاظ میں تنبیہ کی۔
"میں آپ ہی کا بیٹا ہوں بابا،اگر آپ کے فیصلے اٹل ہیں تو پھر میرے فیصلے بھی آپ کے فیصلوں کی طرح ہی اٹل ہیں”اس نے عمار صاحب کے غصے کی بالکل بھی پرواہ نہ کی۔
"تو پھر تمہارا مستقبل خطرے میں پڑ سکتا ہے،تم اعلی تعلیم کے لئے نہ تو روس جا سکو گے اور نہ ہی یہاں کسی پرائیوٹ میڈیکل کالج میں ڈاکٹر بن سکو گے”عمار صاحب نے اسے بلیک میل کرنے کے لئے اپنا آخری پتہ پھینکا۔
"جس مستقبل کی آپ بات کر رہے ہیں تو ممکن ہے وہ مستقبل میرا نصیب نہ ہو اور میں وقت سے پہلے ہی اٹھا لیا جائوں”وہ شعور کی دنیا میں قدم رکھ چکا تھا اور اس کا یہ جملہ اس بات کی ایک کڑی تھی۔وہ واپس مڑنے لگا تو بڑے بھائی عثمان نے آواز دے کر اسے روکا۔
"ایک شرط پہ ہم تمہیں میڈیکل کی تعلیم دلوا سکتے ہیں اگر تم صفیہ سے ابھی نکاح کر لو گے تو ہم لوگ میڈیکل کی تعلیم کے لئے تمہارا ساتھ دینے کے لئے تیار ہو جائیں گے۔لیکن شرط یہ ہے کہ نکاح نامے میں ہماری کچھ شرائط ہوں گی جن پہ تمہارا پورا اترنا لازمی ہے”وہ عثمان کی بات سن کر ٹھٹھکا اور پھر ایک ہلکا سا قہقہہ بلند کیا۔
"آپ ایک اچھے ڈیلر ہیں بھائی،مگر یاد رکھیں رشتوں کے لئے ڈیل نہیں کی جاتی پھر رشتے،رشتے نہیں رہتے بلکہ کاروبار بن جاتے ہیں”وہ استہزائیہ انداز میں کہہ گیا۔
"تمہارے پاس شام تک کا وقت ہے حارث،اگر تم نے ہمیں انکار کیا تو تم اس گھر میں نہیں رہ سکو گے”عمار صاحب اس کے ترکی بہ ترکی جواب سن کر غصے میں کھولتے ہوئے کھڑے ہو گئے تو حارث کے چہرے کی رنگت تبدیل ہو گئی۔ان کی یہ بات تیر کی طرح اس کے سینے میں پیوست ہو گئی۔
"آپ مجھے ابھی نکال دیں بابا،میں رشتوں کے معاملے میں کسی قسم کی بزنس ڈیل نہیں کر سکتا”اس کا لہجہ نرم پڑ گیا۔
"تمہیں میں عاق کر دوں گا اور تم در در کے دھکے کھائو گے،ذلیل و خوار ہو جاؤ گے”وہ اب بھی جھکنے کا نام نہیں لے رہے تھے۔
"طلاق نامے اور عاق نامے میں اب کوئی فرق نہیں ہے بابا،میں ایسے رشتوں کو طلاق دے دوں گا جو اپنی روایات اور مقاصد کے حصول کے لئے اپنی اولاد کو بلیک میل کرتے ہیں۔آپ عاق نامہ لکھ دیجئے گا،حارث!اب اس گھر میں نہیں رہے گا۔اس نے رشتوں کا سفید ہوتا خون دیکھ لیا ہے”اس کی آنکھوں میں نمی اتر آئی اور باہر کی جانب لپک گیا۔عثمان نے آگے بڑھ کر اسے روکنا چاہا لیکن عمار صاحب نے اسے روک لیا۔
"جانے دو اسے،اس نے دنیا کی سخت دھوپ نہیں دیکھی۔جس روز اس کی تپش نے اسے جلایا تو یہ ایڑھیاں رگڑتا ہوا واپس آئے گا”عمار صاحب نے غصے میں تھے تو عثمان ان کے حکم کی پیروی کرتے ہوئے رک گیا جب کہ عمار صاحب اب صائم کی طرف متوجہ ہوئے۔
"میں عاق نامہ لکھ دوں گا تم اسے اخبار میں پوسٹ کروا دینا،اسے بھی پتا چلے کہ میری حکم عدولی کرنے والوں کا انجام کیا ہوتا ہے”یہ کہہ کر وہ کمرے کی طرف بڑھ گئے جب کہ صائم اور عثمان انہیں جاتا ہوا دیکھتے رہ گئے۔ایک طرف ان کا باپ تھا تو دوسری طرف ان کا بھائی تھی۔وہ دونوں بضد تھے اور ان میں سے کوئی ایک بھی ہار ماننے پہ تیار نہیں تھا۔
گھر سے بے دخل ہو جانے کے بعد اس نے میڈیکل میں جانے کا ارادہ ترک کر دیا اور فیکٹری میں مزدور کے طور پر ملازمت اخیتار کر لی۔وہ سارا دن پتھروں کی رگڑائی کرتا،ٹائلیں کاٹ کر ان پی مختلف نقش و نگار کرتا۔اس فیکٹری میں اس نے سات سال تک کام کیا۔اس دوران اس نے پرائیوٹ گریجویشن کی تو اسے فیکٹری میں مینجر کے عہدے پہ تعینات کر دیا گیا۔فیکٹری کے مالک کا بیٹا سلطان ابتدائی دنوں میں ہی اس کا ایک اچھا دوست بن گیا تھا۔وہ اس سے چند سال بڑا تھا اور ایم بی بی ایس کے بعد ہائوس جاب کر رہا تھا۔ایک رات سلطان کی دعوت پہ وہ اس ساتھ کھانا کھانے میں مصروف تھا۔اس دوران اچانک اس نے ابکائی لی اور جو کچھ بھی اس نے کھایا وہ باہر نکل آیا۔سلطان اس کی کمر سہلانے لگا۔اس کے بعد اس نے پھر سے ابکائی لی تو اس بار اس کے منہ سے کھانے کی بجائے خون نکل آیا۔وہ منہ سے خون نکلتا دیکھ کر ہکا بکا رہ گیا۔سلطان بھی اس کی یہ حالت دیکھ کر پریشان ہو گیا۔
"کیا ہوا ہے تم ٹھیک تو ہو،آج صبح تم نے کیا کھایا تھا”سلطان کی پریشانی میں اضافہ ہو گیا۔
"معلوم نہیں،میں نے تو فقط ناشتے میں پراٹھا کھایا،کچھ دنوں سے معدے کا درد تھا تو اس کی دوا لی۔شاید کھانے میں کوئی نقص ہو گا جو میرا معدہ برداشت نہیں کر پایا ہو گا”حارث نے بے چینی سے جواب دیا اور اس کے پیٹ میں درد شروع ہو چکا تھا۔سلطان نے اس کی حالت دیکھ کر کھانا چھوڑ دیا۔وہ حارث کا ہاتھ پکڑ کر اٹھ کھڑا ہوا۔
"چلو ہسپتال چلتے ہیں،اس طرح خون کا آنا کوئی اچھی علامت نہیں ہے”سلطان اس کا ہاتھ تھامے آگے بڑھ گیا تو وہ بھی انکار نہ کر سکا۔سلطان اسے اپنے ساتھ ہسپتال لے گیا جہاں لیبارٹری میں اس کے کچھ ٹیسٹ لئے گئے۔وہ سلطان کے ساتھ وہیں پہ ہی بیٹھا رہا۔اس دوران اسے ایک بار پھر سے ابکائی آئی اور وہ باتھ روم کی طرف بڑھ گیا۔اس کے اندر سے پھر سے ویسے ہی خون نکلا جس طرح کچھ دیر پہلے نکلا تھا۔تھوڑی دیر بعد جب وہ واپس پلٹا تو سلطان اس کی رپورٹ دیکھ کر پریشان کھڑا تھا۔اس کے چہرے کی رنگت بتا رہی تھی کہ رپورٹ میں اس کی موجودہ حالت کو لے کر نتائج اچھے نہیں آئے۔وہ سلطان کی طرف بڑھ گیا اور اس نے رپورٹ کے بارے پوچھا تو سلطان نے نفی میں سر ہلایا۔
"رپورٹ میں تھوڑا سا انفیکشن آ رہا ہے۔اس کا فوری علاج کرنا ضروری ہے ورنہ بڑھ سکتا ہے۔اس لیے اب چلو بڑے ہسپتال چلتے ہیں،تمہیں کچھ روز ایڈمٹ ہونا پڑے گا”سلطان نے پھر سے اس کا ہاتھ پکڑا اور آگے بڑھنے کی کوشش کی تو حارث نے اس کا ہاتھ کھینچ کر اسے روک لیا۔
"مجھے بتائو مجھے کیا ہوا ہے،مجھے میری رپورٹ تو دیکھائو”اس نے سلطان سے مطالبہ کیا۔
"کچھ نہیں ہے بس تھوڑا سا معدے کا پرابلم ہے۔کچھ روز کے علاج کے بعد ٹھیک ہو جائو گے”سلطان نے اپنے احساسات چھپانے کی کوشش کی لیکن حارث اس کی پریشانی بھانپ گیا۔
"مجھے کیا بیماری ہے سلطان،تم مجھے کھل کر بتائو”حارث نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا۔
"کیا تمہیں مجھ پہ یقین نہیں ہے حارث”سلطان بے بس ہو گیا۔
"یقین ہے،اسی لئے ہی تو پوچھ رہا ہوں کہ مجھے کیا ہوا ہے۔دیکھو تمہیں ہماری دوستی کی قسم،تم مجھے بتائو کہ مجھے کیا ہوا ہے۔میں ہر بات کے لیے تیار ہوں”حارث نے اسے دوستی کی قسم دی تو سلطان کی آنکھوں میں نمی سی اتر آئی۔اس نے دھیرے سے رپورٹ اس کے ہاتھ میں تھما دی۔
"خود دیکھ لو تمہیں کیا ہے حارث”سلطان نے منہ دوسری طرف کر لیا،وہ اس سے اپنے آنسو چھپانا چاہتا تھا۔حارث نے رپورٹ پڑھی تو اس کے لبوں پہ ایک مسکراہٹ سج گئی۔
"مجھے کینسر ہو چکا ہے سلطان”اس نے سلطان کو مخاطب کیا تو سلطان نے فقط اثبات میں سر ہلا دیا اور اسے دیکھا نہیں،تو حارث نے آگے بڑھ کر اس کا منہ اپنی طرف کیا۔سلطان کی آنکھوں میں آنسو رواں ہو چکے تھے۔
"سلطان،میں تو اسی دن مر چکا تھا جب میرے باپ نے اپنی روایات اور خاندانی وقار کو زندہ رکھنے کے لئے میرے مستقبل کے ساتھ کھیل کھیلا تھا۔اپنی انا،ضد اور پگڑی سلامت رکھنے کے لئے مجھے قربان کر دیا۔یہ رپورٹ اور بیماری میرے لئے کوئی اہمیت نہیں رکھتی۔میں تو اسی دن مر گیا ہوں جس دن اپنے ہاتھ میں عاق نامہ دیکھا تھا۔بس اس وقت میں تنہا تھا اور میں کسی کے کندھے پہ سر رکھ کر رو نہیں سکتا تھا اور اب تم ہو”حارث اس کی آنکھوں میں بہتے ہوئے آنسو دیکھ کر بولا۔اس نے اپنی بات مکمل کی تو سلطان کے ہونٹ کپکپائے۔
"نہیں،میں۔۔۔میں تمہیں اب مرنے نہیں دوں گا،میں تمہیں کبھی بھی مرنے نہیں دوں گا”سلطان روتے ہوئے اس کے گلے سے لگ گیا۔حارث کی آنکھوں میں بھی آنسو جاری ہو گئے۔وہ کینسر کے آخری اسٹیج پہ تھا اور رپورٹ پڑھنے کے بعد اسے علم ہو گیا کہ اس کی سانسیں جلد ختم ہو جائیں گے۔
تین سال کے مسلسل علاج کے باوجود اس کی بیماری مسلسل بڑھتی رہی،یہاں تک کہ اس کا کھانا پینا بھی بند ہو گیا۔اسے ڈرپس لگا کر خوراک کی کمی پوری کی جاتی لیکن معدے کا کینسر اب زہر بن کر اس کے پورے وجود میں سرائیت کر چکا تھا اور وہ ہسپتال کے بیڈ پہ پڑا اپنی زندگی کی آخری سانسیں لے رہا تھا۔حارث کا سر اس وقت ڈاکٹر سلطان کی گود میں تھا۔ڈاکٹر سلطان اس کی نازک حالت دیکھ کر مسلسل آنسو بہا رہا تھا۔حارث کی اکھڑتی ہوئی سانسیں یہ بتا رہیں تھیں کہ اس کا وقت اجل بہت قریب آ چکا ہے۔
"سلطان۔۔۔۔میری بات۔۔۔۔سن”حارث نے اٹکتے ہوئے اس کا نام لیا۔
"ہاں۔۔۔میں سن رہا ہوں”سلطان نے اس کے چہرے کی طرف دیکھا،وہ اپنے بہتے ہوئے آنسو اس کے چہرے پہ گرانے سے روک رہا تھا۔
"مم۔۔ماں آ چکی ہیں،وہ مجھے لینے آ چکی ہیں”حارث کے لبوں پہ مسکراہٹ سج گئی تو سلطان کے آنسوئوں میں اضافہ ہو گیا اور اس کا چہرہ مکمل بھیگ گیا۔
"کیا تمہارے بابا کو اطلاع دوں کہ تم بیمار ہو”سلطان کی آواز حلق میں اٹک گئی۔
"ہاں۔۔۔بتا دینا،میرا جنازہ پڑھ لیں”بابا کا ذکر سن کر حارث کی آنکھوں سے آنسوئوں کی دھار نکلی جو اس کے گال بھگو گئی۔
"نہیں،میں انہیں پیغام بھیجواتا ہوں”ڈاکٹر سلطان نے نفی میں سر ہلایا تو حارث نے بھی اس کی گود میں سر ہلا دیا۔
"نہیں،انہیں بھی مت بلانا”حارث انکار پہ قائم تھا تو سلطان نے اس کے ماتھے کو ہاتھ سے چھوا۔
"تم نے مجھے ایک بار دوستی کی قسم دی تھی،اب میں تمہیں اپنی دوستی کی قسم دیتا ہوں،تم مجھے مت روکنا”سلطان نے اس کی منت کی تو حارث نے اس کی بات سن کر چپ سادھ لی۔وہ اس کی بات مان چکا تھا۔سلطان نے فورا اپنی جیب سے موبائل نکال کر ڈرائیور کو کال کی اور اسے حارث کے گائوں کا پتا (ایڈریس) سمجھا کر فورا عمار صاحب کو یہ پیغام پہچانے کے لیے کہا کہ وہ فورا ہسپتال پہنچ جائیں۔حارث کی حالت بالکل بھی ٹھیک نہیں ہے۔ڈاکٹر سلطان نے فون بند کر دیا تو حارث نے پھر سے اس کا نام پکارا۔
"سلطان”حارث نے کراہت کے ساتھ اپنی آنکھیں کھول دیں ۔
"سن رہا ہوں،تم بولو”سلطان پوری طرح اسی کی طرف متوجہ تھا۔
"مجھے۔۔۔بابا لوگوں کے ساتھ مت بھیجنا،مرنے کے بعد تم مجھے وہاں دفنا دینا جہاں تم چاہو گے۔میرے۔۔۔کفن کے پیسے بھی میرے بابا سے مت لینا”اس نے سلطان سے درخواست کی تو سلطان کے اندر درد شدت سے سرائیت کرنے لگا۔اس نے حارث کے سر پہ بوسہ دیا تو حارث دھیرے سے مسکرا دیا اور اس نے اپنی آنکھیں بند کر لیں۔
"میں نے بابا کے نام کچھ لکھا ہے سلطان،جب وہ آئیں تو میری جیب سے نکال کر انہیں تھما دینا”حارث نے بند آنکھوں کے ساتھ لب کشائی کی،سلطان نے اس کی بات سن کر فقط اثبات میں سر ہلا دیا کیونکہ جس وقت بھی حارث گفتگو کرتا تو اس کا درد بڑھنے لگ جاتا۔تقریبا دو گھنٹے مسلسل وہ زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا رہا۔وہ درد سے بار بار کراہتا تو سلطان اس کی حالت دیکھ کر رونے لگتا۔حارث کا سر اس وقت سلطان کی گود میں ہی تھا جب عمار صاحب اس کے کمرے میں داخل ہوئے،ان کے بال سفید ہو چکے تھے اور چہرے پہ جھریاں بڑھاپے کے اثرات ظاہر کر رہیں تھیں۔ان کے پیچھے اس کے دونوں بڑے بھائی عثمان اور صائم تھے۔اس کے علاوہ ایک بہن اور بھابھی بھی ان کے ہمراہ آئیں تھیں۔ان سب نے حارث کی حالت دیکھی،عمار صاحب کی آنکھوں سے آنسو کسی سیلاب کی طرح بہنے لگے۔عمثان اور صائم بھی روتے ہوئے اس کی طرف بڑھے،ان نے سامنے ایک کمزور اور نخیف سا حارث تھا۔
"حح۔۔حارث،بابا آئے ہیں،دیکھو ہم سب آئے ہیں”عثمان نے اس کے کندھے پہ ہاتھ رکھ کر اسے ہلایا مگر اس کے وجود میں کوئی حرکت نہ ہوئی۔سلطان نے اسے ہلایا تو اس کی گردن ایک طرف لڑھک گئی۔حارث بے جان ہو چکا تھا اور روح پرواز کر چکی تھی۔سلطان نے بے یقینی سے سب کی طرف دیکھا۔اس نے حارث کا بازو پکڑ کر اس کی نبض چیک کی لیکن اس کی نبض میں بھی کوئی حرکت نہیں تھی۔حارث اس دنیا سے رخصت ہو چکا تھا،اس پہ موت کو رحم آ گیا تھا۔اس کا بے جان وجود دیکھ کر سلطان کے منہ سے بے ساختہ "انا للہ وانا الیہ راجعون” نکلا۔عمار صاحب اس جگہ گھٹنوں کے بل زمین پہ بیٹھ گئے۔ان کا سب سے چھوٹا بیٹا اب نہیں رہا تھا۔ان کی روایات اور خاندانی وقار جیت چکا تھا۔ان کی انا اور ضد کے آگے کوئی زندگی کی بازی ہار گیا تھا۔آج ان کا غرور خاک میں مل گیا لیکن ان کا بیٹا دور کھڑا انہیں مسکراتا ہوا دیکھ رہا تھا جیسے وہ کہہ رہا ہو "آپ ہار گئے ہیں بابا،آپ کی روایات اور خاندانی وقار کو بھی مات ہو چکی ہے۔مجھے اپنی موت پہ فخر ہے”عمار صاحب مسلسل آنسو بہا رہے۔ان کے ساتھ ان کے باقی لوگ بھی رو رہے تھے۔ڈاکٹر سلطان نے اس کی جیب سے کاغذ کا ٹکڑا نکال کر عمار صاحب کی طرف بڑھایا تو عثمان نے وہ خط پکڑ کر کھولا اور اسے عمار صاحب کے ہاتھ میں تھما دیا۔عمار صاحب نے بہتے ہوئے آنسوئوں کے ساتھ وہ خط پڑھنا شروع کیا۔
"بابا،مجھے آپ نے اسی دن مار دیا تھا جس دن آپ نے مجھے عاق کر دیا تھا۔میرے لئے یہ کینسر تو دنیا کی سب سے چھوٹی بیماری ہے اور دنیا سے چلے جانے کا ایک بہانہ ہے۔ورنہ میری موت کو تو دس سال گزر چکے ہیں۔بس مجھ پہ یہ احسان کیجئے گا۔آپ کے مجھ پہ سب حق ختم ہو چکے ہیں۔میری لاش پہ اب کوئی حق مت جتائیے گا۔اللہ کے بعد میرا وارث سلطان ہے۔میری ساری ذمہ داریاں اسی کے سپرد ہیں،ہاں!میری لاش کو آپ کندھا دے دینا”خط کی تحریر یہاں پہ ختم ہو گئی تھی۔عمار صاحب نے خط پڑھ کر اسے عثمان کی طرف بڑھا دیا۔انہیں اپنے بیٹے کے ہاتھوں شکست فاش ہو چکی تھی اور اس کا وارث سلطان اس کا سر اپنی گود میں لئے آنسو بہا رہا تھا۔دس سال پہلے انہوں نے خاندانی روایات کو زندہ رکھنے کے لئے اپنے اس بیٹے کو عاق کر دیا تھا جس نے ان کی روایات کو توڑ دیا۔
ازقلم،اویس