خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

0

رسول امن

انبیاء اور رسول دنیا سے فساد کو ختم کرنے اور امن و آمان قائم کرنے کے لئے تشریف لاتے ہیں۔ ہروہ چیز جو اللہ پاک کے قوانین کے خلاف ہے وہ فساد ہے اوراس کوہٹا کراللہ سبحانہ وتعالی کے قوانین کو اس کی جگہ لانا اصلاح ہے۔ انبیاء و رسل اسی کام کی طرف لوگوں کو حکمت اور موعظۃ الحسنۃ کے ذریعے متوجہ کرتے رہے۔ 

اس پراسیس میں انبیاء کرام کی حتی الامکان کوشش یہی رہی کہ معاملات افھام وتفھیم، امن اور صلح وصفائی کے ذریعے طے کئے جائیں۔ اور اپنے مخاطبین کی اصلاح اور ان کے امراض کا علاج کیا جائے نہ کہ بذات خود ان کو اپنا معاند قرار دے کر ہروقت ان پرلعن طعن کی جاتی رہے۔ اس سلسلے میں امام الانبیاء علیہ افضل الصلاۃ والثناء کے کیا کیفیت تھی اس کا نقشہ قرآن کریم ہمیں اس طرح دکھاتا ہے۔ فلعلک باخع نفسک علی آثارهم ان لم یؤمنوا بھذا الحدیث اسفا۔ (الکھف 6) (اے محمد) شاید تم ان کے پیچھے غم کے مارے اپنی جان کھودینے والے ہو، اگر یہ اس تعلیم پرایمان نہ لائے۔ 

ایک اور مقام پر ارشاد باری تعالی ہے: لقد جاءکم رسول من انفسکم عزیز علیه ما عنتم حریص علیکم بالمؤمنین رؤف رحیم۔ (التوبہ)۔

بے شک تمھارے پاس ایک عظیم الشان رسول تشریف لائے ہیں جو تمہیں میں سے ہیں

جو چیزتمھاری مشقت کا باعث بنے وہ انھیں گراں گزرتی ہے۔ جو مومنوں پربڑے مہربان اور رحم دل ہیں۔ 

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ نے سراسر رحمت بنا کربھیجا

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود فرمایا
انا رحمۃ مھداۃ میں اللہ کی طرف سے ھدیہ کی ہوئی رحمت ہوں۔ 

اور اللہ سبحانہ وتعالی نے ارشاد فرمایا : وما ارسلناک الا رحمۃ للعالمین۔ اور ہم نے تمھیں تمام جہان والوں کے لئے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔ 
سورۃ التوبہ کی مندرجہ بالا آیت مبارکہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے اللہ سبحانہ وتعالی نے اپنے اسما الحسنی میں سے دو اسم استعمال فرمائے ہیں۔ ایک رؤف اور دوسرا رحیم۔ اہل علم کے مطابق اور کسی نبی کے لئے اللہ سبحانہ وتعالی نے اپنے ناموں میں سے دو نام جمع نھیں کئے۔  

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینہ منورہ تشریف لائے تو آپ نے مدینہ کے یھودی قبائل ساتھ مل جل کر بقاء باھمی کے اصول پرمعاہدہ کیا جسے میثاق مدینہ کہا جاتا ہے۔ مزید یہ کہ ان کے قبلے کی طرف منہ کرکے تقریبا ڈیڑھ سال تک نمازیں پڑھتے رہے۔ 

چھ ہجری میں صرف عمرہ ادا کرنے کی نیت سے 1400 صحابہ کے ساتھ گئے، صرف ایک ایک تلوار ساتھ تھی اور ستر قربانی کے اونٹ تھے۔ حالات پرخطر تھے، کیونکہ غزوہ احزاب سن 5 ہجری میں ہوچکا تھا جس میں ناکامی کی تلخی لازما قریش کے دلوں میں موجود تھی۔ 

آپ کو ساتھیوں سمیت حدیبیہ کے مقام پرروک لیا گیا۔ قریش کی اشتعال انگیزیوں پرصبر کیا۔ 

مثلا:
معاہدہ لکھا جارہا تھا تو کفار نے بسم اللہ الرحمن الرحیم پر اعتراض کردیا

شرائط یک طرفہ تھیں اور بڑی سخت تھیں، بعض صحابہ اس پر بڑے بے چین تھے کہ ہم یہ کیوں قبول کررہے ہیں، لیکن آپ نے امن کی خاطر قبول کرلیا۔
لفظ ”محمد رسول اللہ” پر اعتراض کیا گیا تو اسے مٹانا قبول کرلیا بلکہ اپنے دست مبارک سے مٹا دیا۔ یہی تو وجہ نزاع تھی لیکن میرے آقا نے امن کے لئے اسے بھی قبول فرمالیا۔ کیا آج کسی اسلامی جماعت کا لیڈر اتنی بردباری، صبر اور دوراندیشی دکھا سکتا ہے؟ نھیں آج کے اسلامی جماعتوں کے لیڈر بعض تو لالچی اور مفاد پرست ہیں

وہ اپنے مفادات کے تحفظ کے لئے سب کچھ کرنے کے لئے تیار ہوں گے ان کا اسلام صرف مفادات کی حد تک ہے۔ اور جومخلص ہیں وہ حکمت سے عاری ہیں وہ ہروقت ٹکراؤ اور مقابلے اور اپنی برتری اور تقوی کے زعم سے نکلنے کے لئے تیار نھیں۔ ان کے نزدیک حکمت اور موعظۃ الحسنہ تقریروں میں بیان  کرنے کی چیز ہے برتنے کی نھیں۔ 

اسی وجہ سے یہ عوام میں قبولیت بھی حاصل نھیں کرسکيں۔ اور”حق گوئی” کے نام پر خواہ مخواہ مقتدر حلقوں پر مسلسل طعن وتشنیع کرکے انھیں بھی اپنی عداوت پر مجبور کرتی ہیں اور جس کے نتیجے میں وہ حلقے بھی انھیں نیچا دکھانے میں کوئی کسر نھیں چھوڑتے۔ اور بسا اوقات یہ غیرضروری کشمکش اتنی بڑھ جاتی ہے کہ بعض کارکنان جیلوں میں ڈال دیے جاتے ہیں، بعض جان کی بازی ہارجاتے ہیں اور دوسرے جذباتی کارکنان اور لیڈر پیچھے سوشل میڈیا پر پوسٹیں لگا رہے ہوتے ہیں ”شھادتوں کا سلسلہ رکا نھیں تھما نھیں-

یہ قابل قدراور دیانتدار لوگ اپنی غیردانشمندانہ اور جارجانہ پالیسیوں کی وجہ سے مسلسل زیرعتاب رہتے ہیں، مقتدر حلقے ان سے خوف زدہ رہتے ہیں کہ ابھی بغیراقتدار کے یہ ہمارے ساتھ یہ کچھ کررہے ہیں تو اگر کل اقتدار ان کے ہاتھ آگیا تو ہمارا تو یہ حقہ پانی بند کردیں گے۔ لھذا طاقتور حلقے انھیں اقتدار سے دور رکھنے کے لئے تمام حربے استعمال کرتے ہیں۔ اور یہ نیک لوگ مزید بپھر کے کہتے ہیں کہ فلاں نے ہمارے ساتھ یہ کیا اور فلاں یہ کیا ورنہ ہم جیتے ہوئے تھے۔  اوردوسری طرف کرپٹ، مفاد پرست اور فساق و فجار مقتدر حلقوں کے ساتھ کچھ لو اور کچھ دو کی پالیسی اپنا کراقتدار میں آجاتے ہیں اور جی بھرکے ملک و قوم کولوٹتے ہیں، اپنی تجوریاں بھرتے ہیں، اپنے آپ کو اگلے الیکشن کے لئے اور مضبوط کرتے ہیں اور اسلام پسندوں کا مذاق اڑاتے ہوئے اگلے الیکشن کا انتظار کرتے ہیں۔ اس چوہے بلی کے کھیل میں نقصان ملک وقوم ہوتا ہے، غریب اور مزدور طبقے کا ہوتا ہے۔

کیا ہمارے لئے سیرت طیبہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مذکورہ بالا واقعات میں کوئی رہنمائی، کوئی روشنی، کوئی گائیڈ لائن ہے؟

الیس منکم رجل رشید؟

Leave A Reply

Your email address will not be published.

error: Content is protected !!