بیشک علم و دانشوری مسلمانوں کا شیوہ رہا ہے۔ مگر یہ بھی ایک کڑوا سچ ہے کہ اسلام کے نام پر تشکیل پانے والے دنیا کے واحد ملک پاکستان کی عوام مجموعی تعلیمی اعتبار سے پسماندہ ہیں،اسی وجہ سے ہم قومی زندگی میں دیگر قوموں کے مقابلے میں پیچھے ہیں۔ سیاسی، سماجی، ثقافتی، دینی اور اقتصادی ترقی، اچھی تعلیم اور عمدہ تربیت کے بغیر ممکن نہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ تعلیم کیسی ہو اور اسے کس طرح فروغ دیا جائے تاکہ ہماری آنے والی نسلیں دنیا کی نظروں میں نظریں ڈال کر بات کر سکیں۔ اس اہم سوال کا جواب ہمیں ہمارا کھویا ہوا مقام وآپس دلوا سکتا ہے۔
ہمارا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ہم اب تک تعلیم لفظ کا مطلب ہی نہیں سمجھ پائے، ہم آج تک ٹیکنیکل تعلیم کو غیر ضروری سمجھتے آئے ہیں اور اس کے برعکس اکیڈمک تعلیم کو بچوں کے مستبل کے لئے انتہائی موزوں جانتے ہیں اور رہی بات دینی تعلیم کی تو اسے صرف قرآن پڑھانے تک ہی محدود کردیا گیا ہے۔ فرقہ واریت کا یہ عالم ہے کہ اہلسنت سے تعلق رکھنے والا اپنے بچے کو نا دیوبند اور نا ہی اہل تشیع کے اسکول میں بجھواتا ہے اور یہ ہی سوچ دیوبند اور اہل تشیع مسلمانوں کی بھی ہے۔
ہمارے ملک کی آبادی کا ایک بڑا حصہ پسماندہ علاقوں میں رہائش پذیر ہے جن کے لئے یہ ہی بہت بڑی کامیابی ہوتی ہے کہ ان کا بچہ کسی طرح سے میٹرک کے امتحان میں کامیاب ہوجائے۔ مقصد ان کا بھی یہ نہیں کہ بچہ میٹرک میں کامیاب ہو کر اپنی تعلیم کو خیر باد کہے دراصل معاشی پسماندگی بڑی مشکل سے لوگوں کو اس بات کی اجازت دیتی ہے کہ وہ بچے کو میٹرک تک پہنچا سکیں اور کچھ لوگ تو وسائل کی کمی کے باعث اس خواہش کو بھی پورا نہیں کر پاتے، مگر پھر بھی ایک بڑی تعداد میڑک تک رسائی کر ہی لیتی ہے جن میں سے چند بچے ہی اعلٰی تعلیم حاصل کر پاتے ہیں اور باقی گمنامی کے اندھروں میں، یہ گمنامی کا اندھیرا بھی دو طرح کا ہوتا ہے کچھ بچے معاشی دوڑ دھوپ میں ذریعہ معاش کے لئے دنیا کی بھیڑ میں کھو جاتے ہیں، اور کچھ بچے جن کی رسائی ذریعہ معاش تک نا ہو وہ پھر غلط صحبت کا شکار ہو کر ملک کے مسائل میں اضافے کا سبب بنتے ہیں۔
اعلٰی تعلیم حاصل کرنے والے طلباء کے مسائل بھی دن بہ دن بڑھتے ہی جا رہے ہیں، ان طلباء کے مسائل کی اہم وجہ صرف ایک ہی ہوتی ہے اور وہ یہ کہ تعلیمی میدان میں غلط شعبے کا انتخاب، طلباء اپنی صلاحیتوں کا اندازہ لگائے بغیر شعبوں کا انتخاب کرتے ہیں، ہمارے ملک میں شعبوں کا انتخاب ایک بڑا دلچسپ مرحلہ ہے۔ طلباء شعبے کے انتخاب کے لیے جس اہم امور کو ترجیح دیتے ہیں وہ ہے آمدنی کہ آیا کس شعبے کے لوگوں کی آمدنی زیادہ ہے یا کس شعبے کے لوگوں کا معیار ذندگی بہتر ہے، یعنی آمدنی کا بہتر ہونا ہماری ترجیحات میں شامل ہے۔ نتیجتاً کسی خاص شعبے میں لوگوں کی تعداد اس قدر بڑھ جاتی ہے کہ اُس شعبے کے لوگوں کی اہمیت ختم ہونا شروع ہوجاتی ہے۔ مثال کے طور پر ہمارے ملک میں ایک دور ایسا آیا جس میں وکالت کہ پیشے سے وابستہ افراد کی ڈیمانڈ زیادہ تھی اور ان کا معیار ذندگی بلند تھا چناچہ طلباء کی ایک کثیر تعداد اس شعبے سے منسلک ہونا شروع ہوگئی اور اس طرح سے اس پیشے سے منسلک افراد کو معاشی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا، کسی دور میں میڈیکل کا شعبہ عروج پر رہا تو طلبہ کا رحجان میڈیکل کی طرف بڑھا اور اس طرح ہر گلی محلہ میں ڈاکٹر حضرات کلینک چلانے لگے اور یوں اس شعبہ ذندگی سے تعلق رکھنے والے افراد بھی مایوس ہونے لگے۔ موجودہ دور میں طلباء کا رحجان سوشل سائنس کی طرف بڑھتا ہوا دکھائی دے رہا ہے اور اس شعبے میں بھی دن بہ دن لوگوں کی تعداد بڑھ رہی ہے، ہر دوسرا طالب علم Economics, Business Administration یا International Relation میں دلچسپی لے رہا ہے اور اسی وجہ سے ملک میں پڑھے لکھے افراد بے روزگاری کے دلدل میں پھنستے چلے جا رہے ہیں، طلب اور رسد میں توازن ہونا دنیا کے ہر مسئلے کا فارمولا ہے۔ چناچہ طلباء کے مسائل کا حل یہ ہو سکتا ہے کہ اپنی صلاحیتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ایسے شعبے کا انتخاب کریں جس میں رسد کم اور طلب زیادہ ہو اور یوں مذکورہ شعبے میں موجود خلا کو پر کرسکیں، یعنی ہر مرحلہ پر برابری اور مساوات، دین اسلام دنیا کا وہ واحد مذہب ہے جو ہمیں مساوات اور برابری کا درس دیتا ہے چنانچہ مسلمان ہونے کے ناطے ہمیں اس اصول کی پیروی کرنی ضروری ہے، اور اس طریقے سے نا تو صرف ہم ملکی مسائل کا حل تلاش کرسکتے ہیں بلکہ مسلم امت کی خدمت بغیر کسی کی حق طلفی کے انجام دے سکتے ہیں۔
اس وقت ہمارے ملک میں دو طرح کے تعلیمی نظام رائج ہیں۔ جس کے نتیجے میں دو ہی طرح کے لوگ بھی پیدا ہو رہے ہیں۔ ایک وہ جو دنیاوی علم سے آگاہی رکھتے ہیں اور دوسرے وہ جو دینی علوم پر مہارت رکھتے ہیں۔ ضرورت صرف اس امر کی ہے کہ کسی طرح یہ دو پہلو آپس میں مدغم ہوجائیں اور ہم اپنے لوگوں کو ایسا انسان بنا سکیں جس کو ہم مومن مطلوب کہہ سکیں۔ دو قومی نظریہ جو کہ پاکستان کی بنیاد اور ہماری جداگانہ پہچان ہے، اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ ہم ایک ملت، ایک مذہب اور ایک سوچ کے حامی ہیں، پھر ایک سوچ کے حامل لوگوں کی رائے تعلیم کے میدان میں دوہری کیوں؟دین اور دنیا کو الگ الگ شعبے میں تقسیم کرنا منافقت اپنانے کے برابر ہے،۔دین محمدیﷺ کا اصول ہے کہ ہماری دنیا ہمارے دین سے جدا نہیں۔
اس بات سے انکار نہیں کہ دینی اور دنیاوی تعلیم کو فوری طور پر اکھٹا کرنامشکل ترین کام ہے، اس کام کی انجام دہی کے لیے عوامی ذہن سازی کی ضرورت ہے، چنانچہ ہمیں اپنے آپ میں تبدیلی لاکر مثالی نمونہ بننا ہوگا۔ فرقہ وارانہ مسائل سے دوچار عوام کی سوچ تبدیل کرنی ہوگی اور اسی طرح پاکستانی عوام کی تعلیمی پسماندگی بہتری کی طرف راغب ہو سکتی ہے۔