وہ اب اس دنیا میں نہیں رہے لیکن ان کی شخصیت آج بھی میری نظروں کے سامنے ہے، دراز قد، کسرتی جسم، سنہری آنکھیں اور گورا رنگ، لاہور سے تعلق رکھنے والے راشد محمود خان کسی فلمی ہیرو سے کم نہیں تھے، دو دہائیوں سے زیادہ عرصہ سے جاپان میں مقیم تھے، کم عمری میں جاپان آئے محنت مزدوری کرکے نہ صرف اپنے بلکہ پاکستان میں اپنے اہل خانہ کے حالات بھی سدھارے، پاکستان سے بہت محبت کرتے تھے ہمیشہ بینک کے ذریعے پیسہ پاکستان بھیجا کرتے، ان کا کہنا تھا کہ قانونی طریقے سے پیسہ پاکستان بھیجنے سے نہ صرف گھر والوں کو رقم پہنچ جاتی ہے بلکہ ملک کی معیشت بھی بہتر ہوتی ہے وہ عمران خان کی حکومت سے بہت پر امید تھے کہ ایک ایماندار حکمران کےبر سرِ اقتدار آنے سے ملک کے حالات جلد ٹھیک ہوجائیں گے لیکن بدقسمتی دیکھیے اپنی آنکھوں سے ملک کے حالات دیکھنے کے لئے زندگی نہ رہی، انھوں نے جاپانی خاتون سے شادی کی، کوئی اولاد نہ تھی۔
زندگی ٹھیک گزر رہی تھی کہ شوگر کا مرض لاحق ہوا جس نے ان کی تیز رفتار اور چلتی پھرتی زندگی کو بسترِ مرگ تک پہنچا دیا، چند برس قبل شوگر کی زیادتی کے سبب ڈاکٹروں کو ان کی جان بچانے کے لئے ان کے پیروں کو ان کے جسم سے الگ کرنا پڑا تو بھی انھوں نے ہمت نہیں ہاری، وہ وہیل چیئر پر ہی اپنے تمام فرائض انجام دے رہے تھے، میرے پاس آج بھی وہ ویڈیو موجود ہے جس میں وہ وہیل چیئر پر ایک ظہرانے میں شرکت کرنے ایک ریستوران پہنچے اس وقت بھی ان کے چہرے پر مسکراہٹ تھی۔
ڈیڑھ ماہ قبل دوستوں سے ان کی آخری ملاقات تھی جس کے بعد شاید صحت نے انھیں اجازت ہی نہ دی کہ وہ لوگوں سے مل سکتے، وہ بیماری کے سبب اسپتال میں داخل ہوئے جس کے بعد اگلے ڈیڑھ ماہ تک ان کا کسی سے رابطہ نہیں ہوسکا، کچھ دوستوں نے رابطے کی کوشش کی تو فون بند ملا،ان کی اہلیہ سے بھی رابطہ ممکن نہ ہوسکا تو ان کے قریبی دوستوں نے کانا گاوا کین کی پولیس اور اسپتال سے رابطے شروع کئے تو معلوم ہواکہ راشد محمود خان وفات پاچکے ہیں اور ان کی میت کو سپرد آتش یعنی جلادیا گیا ہے، اس خبر نے جاپان میں رہنے والے ہر پاکستانی کو سکتے میں مبتلا کردیا، کیونکہ ابھی چند ماہ پہلے ہی ٹوکیو میں ہر دلعزیز پاکستانی ببو بھائی کی میت کو بھی جاپانی طریقہ کار کے مطابق جلادیا گیا تھا اور اب راشد محمود خان کے ساتھ بھی یہی حادثہ ہوا جبکہ پاکستانی سفارتخانہ اس واقعے سے مکمل طور پر لاعلم رہا۔
اس واقعے کے حوالے سے بھی ایک دوست نے سفارتخانے کو آگاہ کیا، ابھی چھ ماہ قبل ہی ببو بھائی کی وفات اور ان کی میت کو جاپانی طریقہ کار کے تحت جلائے جانے کے واقعے کی گونج پاکستان کے ایوانوں تک پہنچی تھی تو جاپان میں پاکستانی سفیر سمیت تمام سفارتی حکام نے پاکستانی کمیونٹی سے وعدہ کیا تھا کہ وہ جاپانی حکومت سے رابطہ کرکے درخواست کریںگے کہ کسی بھی پاکستانی کی وفات کی صورت میں پاکستانیسفارتخانے کو آگاہ کیا جائے، لیکن لگتا ایسا ہی ہے کہ بادی النظر میں ایسی کوئی کوشش نہیں کی گئی۔
حقیقت تو یہ ہے کہ پاکستانی سفارتخانے میں تعینات افسروں کے حوالے سے بے توجہی کی ایک طویل فہرست ہے لیکن کمیونٹی کی کوئی سننے والا نہیں ہے، بہرحال گزشتہ چھ ماہ میں وفات کے بعد جلنے والے دونوں ریاست پاکستان کے مظلوم فرزند ہیں جن کو موت کے بعد مٹی بھی نصیب نہیں ہوسکی، جاپانی قانون کے مطابق جو بھی شخص جاپان میں وفات پائے گا اس کی میت اس کے اہل خانہ کے سپرد کردی جائے گی جس کے بعد جیسا اہل خانہ چاہیں ویسے ہی آخری رسومات ادا کرسکتے ہیں۔
ببو بھائی اور راشد محمود کے معاملے میں دونوں کی بیویاں جاپانی تھیں اور اُن کا کسی پاکستانی سے رابطہ نہیں تھا اور تھا بھی تو انہوں نے کسی سے اپنے شوہروں کی اموات کا ذکر نہیں کیا، لیکن اصل ذمہ داری حکومتِ پاکستان اور پاکستانی سفارتخانے کی ہے کہ وہ جاپانی حکومت سے مطالبہ کریں کہ پاکستانی مسلمان کی وفات کی صورت میں پہلے پاکستانی سفارتخانے کو آگاہ کریں، لیکن پاکستانی سفارتخانے نے جاپانی حکومت سے ایسا کوئی مطالبہ نہیں کیا جس کے باعث ایک اور پاکستانی کی میت کو جلادیا گیا، یہ صورتحال فوری توجہ کی متقاضی ہے، امید ہے کہ وزیر اعظم اعلیٰ ترین سطح پر اس مسئلے کو دیکھیں گے ورنہ سفارتی افسران کو ئی توجہ نہیں دیں گے۔ افسوس۔