فلسطین سے ہمدردی از غلام عباس ساغر

0

ضیاالحق کی سربراہی میں ایک تربیتی مشن اردن بھیجا گیا تب آپ برگیڈئیر تھے اس زمانے میں اردن اور فلسطین کا وہی حساب تھا جو آج پاکستان اور کشمیر کا ہے۔ آزاد کشمیر کی طرح اردن نے دریائے اردن کے مغربی کنارے پر قبضہ کر لیا تھا دریائے اردن کے مشرق میں چالیس ہزار فلسطینی مہاجر تھے یہ اردن کی آبادی کا ایک تہائی بنتے تھے دریائے اردن کے مغربی کنارے میں ابھی اتنےہی فلسطینی تھے فلسطینیوں نے دریائے اردن کے مغربی کنارے کو اپنی آزادی کا بیس کیمپ بنایا ہوا تھا۔

یہاں سے فلسطینیوں کو تربیت دے کر مقبوضہ علاقے میں اسرائیلیوں کے خلاف چھاپہ مار سرگرمیاں جاری رکھنے کے لیے بھیجا جاتا تھا اردن نے جب یہ علاقہ اپنے قبضے میں لیا تو فلسطینیوں نے اسے اپنی کمزوری نہیں بلکہ طاقت میں اضافہ سمجھا مسلمان بھائی آ گئے تھے نا، مقبول بٹ شہید نے آزاد کشمیر کو بیس کیمپ بنا کے یہی عمل شروع کرنا چا ہا تھا مگر امریکہ کو یہ پسند نہ تھا شاہ حسین مرحوم کو یہ خطرہ لاحق تھا کہ کہیں فلسطینی دریائے اردن کے مغربی کنارے کو آزاد فلسطینی ریاست نہ بنا لیں لیکن ان کے لیے اس سے بڑی مشکل یہ تھی کہ ہماری طرح وہ بھی سعودی عرب کے ساتھ امریکہ کے اتحادی تھے۔

امریکا کی ترجیح اسرائیل اس کی بقا اور مشرق وسطیٰ میں اس کی بالادستی تھی اس طرح کی صورتحال میں ہم نے جو کردار القاعدہ کو ختم کرنے کے لئے ادا کیاوہی کردار اردن کو فلسطینیوں کو اکھاڑنے کے لئے ادا کرنا پڑا آپ 15 ستمبر 1977 برگیڈئیر ضیاءالحق کے در پردہ قیادت میں اردنی فوج نے فلسطینیوں پر حملہ کیا اور انہیں اردن سے باہر کردیا اس سانحہ میں 40 ہزار سے زائد فلسطینی شہید ہوئے۔ اردن فلسطینیوں کے دباؤ میں سے نکل آیا اور اسرائیل پر سے بڑا خطرہ ٹل گیا بالکل اسی طرح جس طرح وسط ایشیا کے مسلم ممالک یہ محسوس کر رہے ہیں کہ وہ القاعدہ کے دباؤ میں آنے سے بچ گئے ہیں اور اسرائیل پر سے ایک اور خطرہ ٹل گیا ہے اردن میں 15 ستمبر 1970 کو جو ملٹری ایکشن شروع ہوا تھا وہ جولائی 1971 تک جاری رہا۔

ضیاالحق سے مغرب پہلے بھی آشنا تھا مگر فلسطینیوں کے خلاف ایکشن نے اسے ان کیلئے بہت اہم بنا دیا ادھر ذوالفقارعلی بھٹو، شاہ فیصل، صدر سوکارنو، حافظ الاسد اور معمر قذافی کے ساتھ مل کر امریکہ اور سوویت یونین کے بلاکوں سے نکل کر تیسرا بلاک بنانے اسلامی بینک قائم کرنے اور مسلمانوں کی سائنسی ترقی کو ایٹم بم بنانے سے شروع کرنے کی جو تیاریاں کر رہے تھے وہ امریکہ اور سویت یونین دونوں کے لیے قابل قبول نہیں تھی، اس سارے منصوبے میں مرکزی حیثیت صرف ذوالفقارعلی بھٹو کی تھی اور ان تمام سرگرمیوں کا مرکز پاکستان میں بننا تھا اگر یہ منصوبہ کامیاب ہوجاتا تو مسلمان ملکوں کی حالت ایسی نہ ہوتی جیسی آج ہے اور پاکستانیوں کا شمار امریکہ کے تابع داروں میں نہ ہوتا مگر ضیاءالحق سے بغاوت کروا کر یہ سارا منصوبہ تباہ کیا گیا یہ ہے ضیاءالحق کا وہ ظلم جو صرف مجھ پر نہیں اس نے پوری مسلم امہ پر کیا ہے، باقی جو کسر رہ گئی وہ ضیاء الحق کے سیاسی بیٹے نے ملک کو کھوکھلا کرنے میں استعمال کی۔

کچھ لوگ اسے اس لئے مرد حق کہتے ہیں کہ وہ نماز پڑھتا تھا نماز اول تو ہم اپنی بخشش اور اللہ کی تابعداری کے اظہار کے لیے پڑھتے ہیں، مسلمانوں کا ہندوؤں کا عیسائیوں کا یہودیوں کا ناحق خون بہانے کے لیے نہیں پڑھتے، اگر ہم نماز پڑھیں اور اللہ کے بے گناہ مخلوق کا خون بہانے لگے تو ہم سچ سے ہٹ کے جھوٹ میں داخل ہوجاتے ہیں اور جھوٹوں پر لعنتیں بے شمار ہیں جھوٹے پر لعنت سچے پر رحمت، یہ نعرہ نہیں ایک حقیقت ہے اور ضیاء مجسم جھوٹ تھا تھا ان سب باتوں کو تولیئے اور سوچئے، آج ہم کس منظر پر ہیں؟

موت ہاتھ میں لیے ہم تم زندگی کی صدا لگاتے ہیں

Leave A Reply

Your email address will not be published.

error: Content is protected !!