بااثر لیکن سب سے پسا ہوا طبقہ

0

میں ایک برادر عرب ملک میں موجود تھا ، نماز مغرب کا وقت ہونے کو تھا لہٰذا مسجد کا رُخ کیا ،ابھی میں مسجد کے دروازے پر پہنچا ہی تھا کہ دیکھا ایک بڑی گاڑی مسجد کے دروازے پر آکر رُکی ،ایک صاحب نے آگے بڑھ کرعزت و احترام سے دروازہ کھولا تو سفید رنگ کے عربی جبے جس پر سنہرے رنگ کا گائون بھی تھا، پہنے ایک صاحب گاڑی سے اترے اور انھیں عزت و احترام سے مسجد کے اندر لے جایا گیا ،میں بھی ان صاحب کے پیچھے پیچھے مسجد کے اندر داخل ہوا تو معلوم ہوا کہ تشریف لانے والی شخصیت اس مسجد کے امام ہیں ،میں نے دل ہی دل میں سبحان اللہ کہا اور ایک مسجد کے امام کو یہاں دیے جانے والے عزت واحترام کا قائل ہوگیا ، لیکن میرے دل میں یہ خواہش پیدا ہوئی کہ کاش ہم پاکستان میں بھی امام مسجد کو ایساہی پروٹوکو ل اور عزت فراہم کریں جس کے وہ مستحق بھی ہیں۔

لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ بطور ریاست ہم نے اپنی قوم کے اس عظیم اور اہم ترین طبقے کو سب سے کم اہمیت دی ہے ،جس کے معاشرے کو شدید نقصانات بھی اٹھانا پڑے ہیں۔ حقیقت یہی ہے کہ ہمارے معاشرے کا سب سے اہم اور بااثر طبقہ ہی معاشرے کا سب سے پسا ہوا طبقہ ہے ۔جی ہاں میں اپنے ملک کے ان علماء کرام ، حفاظ کرام ، آئمہ مساجد اور موذن صاحبان کی بات کررہا ہوں جن پر پوری پاکستانی مسلم قوم کو پختہ یقین ہے کہ یہی علمائے کرام ہمیں دین سکھائیں گے ،ہمیں نماز پڑھائیں گے،ہمیں قرآن پاک کی تعلیم دیں گے ،غرض ہمیں جنت تک یہی علمائے کرام پہنچائیں گے، لیکن ہم نے بحیثیت قوم ، بحیثیت ریاست معاشرے کے اس اہم ترین طبقے کے ساتھ کیا کیا ؟

حقیقت یہی ہے کہ ہماری ریاست نے معاشرے کے اس اہم ترین طبقے کو سب سے کم اہمیت دے کر اسے اس کے حال پر چھوڑ دیا ، پھر کیا ہوا لوگوں نے دیکھا کہ عوام نے اپنی مدد آپ کے تحت مساجد اور مدرسے قائم کرنا شروع کئے ،جہاں انہی مدارس کے فارغ التحصیل حفاظ اور قاری بطور امام مسجد اور موذن خدمات انجام دینے لگے اور اہل محلہ نے چندے جمع کرکے امام مسجد اور موذن صاحبان کی تنخواہوں کی ادائیگی کی ذمہ داریاں سنبھال لیں اور اس طرح ملک بھر میں لاکھوں مساجد اور مدارس قائم ہوئے جن کا ریاست سے براہ راست کوئی تعلق واسطہ نہ رہا ، پھر دیکھتے ہی دیکھتے یہ ریاست کا بااثرطبقہ بن گیا، بااثراس لئے کہ پاکستان کی ستر فیصد آبادی دیہات میں مقیم ہے ۔

یہاں لاکھوں کی تعداد میں مساجد اور مدارس قائم ہیں لہٰذا ان مدارس اور مساجد کی انتظامیہ عددی طور پر اس قدر طاقتور ہے کہ یہ طبقہ اب انتخابی سیاست میں نتائج تبدیل کرنے کی صلاحیت حاصل کرچکا ہے،ان کی یہ طاقت کبھی ریاست کیلئے سود مند تو کبھی نقصان دہ بھی ثابت ہوسکتی ہے ، اسی حوالے سے جاپان میں مقیم معروف عالم دین علامہ شکیل ثانی کے مطابق پاکستان کے دیہات میں قائم مساجد اور مدرسوں میں علمائے کرام ریاستی سرپرستی نہ ہونے کے سبب بہت ہی مشکل زندگی گزارنے پر مجبورہیں ، کیونکہ یہ علمائے کرام سفید پوش زندگی گزارتے ہیں کسی کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلاسکتے ، ان کی مساجد میں امامت ، یا بطور موذن یا پھر مدرسے میں استاد کے طور پر جو تنخواہیں مقرر کی جاتی ہیں وہ انتہائی کم ہوتی ہیں جس میں اس مہنگائی کے دور میں گزارہ بہت مشکل ہوچکا ہے۔

علامہ شکیل ثانی بہت افسردہ تھے وہ کہہ رہے تھے کہ ہماری قوم اپنے سب سے کند ذہن بچے کو عالم بنانا چاہتی ہے ا ور سب سے ذہین بچے کو ڈاکٹر انجینئر بنانے کی خواہش رکھتی ہے ، قرآن پاک پڑھوانے کیلئےتین سو روپے ماہانہ دیتے ہیں جب کہ انگریزی اور دیگر مضامین کیلئےپانچ ہزار روپےتک دے دیتے ہیں، غریب علاقوں میںلوگ بچوں کو مدرسے میں غربت کے سبب داخل کراتے ہیں کہ وہاں کھانا اور کپڑا تو ملے گا۔

علامہ شکیل ثانی نے تجویز پیش کی کہ اگر ملک بھر کی مساجد و مدرسے ریاست کے کنٹرول میں ہوں ، امام مسجد بننے کیلئے ماسٹرز کے برابر ڈگری اور مقابلے کا امتحان پاس کرنا لازمی ہو ،امام مسجد کو سترہ گریڈ کا عہدہ اور سہولتیں فراہم کی جائیں اور وزارت مذہبی امور کے تحت خطبات مرتب ہوں ، پھر دیکھیں بکھری ہوئی قوم ایک قوم کیسے بنتی ہے ، لیکن جب تک معاشرے کے اہم ترین اور طاقتور ترین طبقے کو نظر انداز کیا جاتا رہے گاہمارا ایک قوم بننے کا خواب خواب ہی رہے گا۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.

error: Content is protected !!