انفرادی طور پر اگر غیر یقینی صورتحال پیدا ہو جائے تو اسکا تدارک دوست ، رشتہ دار اور احباب مل کر منطقی انجام تک پہنچا دیتے ہیں۔اگر یہی صورتحال ملکی سطح پر ہو جائے تو معشیت دان اور قانون دان مل کر اسباب جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔ اپنی سفارشات حکومت کو پیش کرتے ہیں۔ملک میں موجودہ صورتحال پر نظرثانی کریں تو یہی نظر آتا ھے۔ سابقہ پی ڈی ایم کی حکومت اور موجودہ نگراں حکومت کو اپنی ترجیحات عزیز ہیں۔ اس وقت حکومت اور عوام ایک پیج پر نہیں ہیں۔
جب نگراں وزیراعظم سے سوال کیا گیا لوگ ملک چھوڑ کر جا رہے ہیں فرمانے لگے جانے دیں یعنی اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ملک کا پڑھا لکھا طبقہ نقل مکانی کرنے پر مجبور ہو گیا ھے۔معاشی طور پر ملک پچھلے سولہ ماہ میں جس تنزلی کا شکار ھے وہ سلسلہ بدستور جاری ھے غربت، افلاس، گیس اور بجلی کے بلوں نے عوام کے منہ سے دو وقت کی روٹی چھین لی ھے حکومت اور حکومتی ادارے یہ کہتے ہوئے نظر آرہے ہیں ہم مجبور ہیں۔آئی ایم ایف کے معاہدوں کے پابند ہیں نگراں حکومت نے بھی پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ کر دیا ھے۔
غیر یقینی کی فضاء عوام کے دلوں پر راج کر رہی ھے۔ اسٹیٹ بینک کی معاشی پالیسی نے مزید حالات کو خراب کرنے کا سبب بنی ھے شرح سود بائیس فیصد کر دیا ھے ان حالات میں لوگ اپنا سرمایہ نکال کر بینک میں رکھنا شروع کر دیا ھے کاروباری سرگرمیاں معطل ہو کر رہ گئی ہیں۔سرمایہ کار غیر یقینی کی صورتحال سے اس وقت دو چار ہوتے ہیں جب ڈالر کی قدر روپے کے مقابلے میں زیادہ ہو جاتی ھے بینکوں میں رکھے ہوئے روپے کی قدر میں کمی آجاتی ھے اسٹاک مارکیٹ کا انڈیکس گراوٹ کا شکار ھے ۔
بیرونی سرمایہ کار غیر یقینی کی صورتحال سے دو چار ھے اپنے سرمایہ کو تحفظ دینے کے لیے مارکیٹ سے سرمایہ نکالنے پر مجبور ہیں۔پی ڈی ایم کی حکومت اور موجودہ نگراں حکومت مسئلے کا حل اگر تلاش کر بھی رہی ھے تو معاشی طور پر۔موجودہ وزیر خزانہ جو پہلے اسٹیٹ بینک کی گورنر بھی رہ چکی ہیں اپنے ایک بیان میں کہا ھے ، ملک کو جو معاشی نقصانات پہنچے ہیں اسکا اندازہ لگانا بہت مشکل ھے۔عدالت میں بھی غیر یقینی صورتحال پائی جاتی ھے۔سرمایہ دار طبقہ غیر یقینی صورتحال سے دو چار ھے اسے نہیں معلوم آنے والے چند ماہ میں کیا ہونے جا رہا ھے عوام کو موجودہ حکومت پر اعتماد نہیں ھے، وہ صرف یہی جانتے ہیں نگراں حکومت نوے دنوں میں انتخابات کروانے کی پابند ھے۔
صدر صاحب الیکشن کمیشن کو بلا رہے ہیں مگر الیکشن کمیشن کے سربراہ نے ملاقات سے انکار کر دیا ھے عوام اور ہر طبقہ سے تعلق رکھنے والے افراد غیر یقینی صورتحال اور بے چینی پائی جاتی ھے۔ مالیاتی ادارے بھی غیر یقینی صورتحال سے دو چار ہیں آئی ایم ایف نے تین ارب ڈالرز کا پیکج دینے سے قبل اپوزیشن کے سربراہ سے ملاقات کرتے ہیں اور اس بات کی ضمانت لیتے ہیں الیکشن کے بعد اگر انکی حکومت آئی تو معاہدے کی پاسداری کرے گی۔ ملک میں اگر ایسے ہی غیر یقینی صورتحال برقرار رہی۔
ملک میں ہنگامی صورتحال پیدا ہو جائے گی،قانون نافذ کرنے والے ادارے کنٹرول نہیں کر سکیں گے۔ غیر یقینی صورتحال ملک کو خانہ جنگی کی طرف لے جائے گا۔ اس سے قبل غیر یقینی صورتحال مزید خراب ہوں ، طاقتور حلقہ اور الیکشن کمیشن اپنا کردار ادا کریں ملک صاف اور منصفانہ انتخابات کو یقینی بنائیں۔ غیر یقینی صورتحال کا واحد حل آزاد اور منصفانہ انتخابات ہیں۔