الیکشن آیا الیکشن آیا اپنے ساتھ سیاسی نعرے لایا سبز باغ سے بھرپور دعوے لایا عوام کو بے وقوف بنانے ایک بار پھر سے الیکشن آیا سیاست دانوں کی ریشہ دوانیوں سے بھرا الیکشن آیا سازشوں،بغاوتوں اور ایک دوسرے کی عزتیں اچھالنے اور الزامات سے بھرپور الیکشن آیا غریب کے نام پر ووٹ مانگنے اور خود کو امیر سے امیر تر بنانے کا موسم آیا جمہوریت کے نام پر اجارہ داری قائم کرنے کا دور آیا لیڈروں کی گھسی پٹی تقریروں کا الیکشن آیا اور بھولی بھالی عوام کو سندھی،بلوچی،پختون ،پنجابی کارڈ کھیل کر تقسیم کرنے سمیت ایک دوسرے کے دست و گریبان کرنے کا الیکشن آیا اور ناجانے کون کون سے خرافات سے بھرا ہوا موسم آیا ہے اور اس الیکشن سیزن کے بادل آسمان پر اب آہستہ آہستہ چھانے شروع ہوچکے ہیں گھن گرج بھی شروع ہوچکی ہے ہر ایک دعویدار ہے اقتدار کی مسند پر بیٹھے کیلئے اور ملک کی تقدیر بدلنے کے لئے زبانی جمع خرچ سے بھرپور وعدے عوام کے کانوں کی سماعتوں تک پہنچنا شروع ہوچکے ہیں۔
الیکشن تو ہوگا عوام ووٹ بھی ڈالیں گے اور اسی عوام کے کئی سپوت الیکشن کے روز لڑائی جھگڑوں کی نظر ہوکر لقمہ اجل بھی بن جائیں گے اور کچھ زندگی بھر معذوری کاٹیں گے اور ان سب واقعات کا فائدہ الیکشن لڑنے والوں کو ہوگا جن کے ہاتھ میں بدقسمتی سے پاکستان کی تقدیر ہے اور یہ تقدیر اس قدر بدقسمتی پر منحصر ہوچکی ہے کہ قومی اسمبلی کا الیکشن دس سے بارہ کروڑ اور صوبائی اسمبلی کا الیکشن آٹھ کروڑ لمبے چوڑے خرچوں سے لڑا جائے گا اور یہ لمبے خرچے کیا عوام کی ترقی اور خوشحالی کے لئے ہیں تو اسکا جواب نا میں ہے کیونکہ سیاست ایک دھندہ ہے جس میں جیتنے اور ہارنے والے دونوں فاہدے میں رہتے ہیں اور جیتنے والا اپنا الیکشن مہم پر سرمایہ کاری کو کئی گناہ وصول کرکے جلدی پورا کرلیتا ہے تو ہارنے والا بھی کسی نا کسی صورت اپنا خسارہ پورا کر ہی لیتا ہے۔
ایک ایم این اے کے حلقے کے تمام تھانے،بس اسٹینڈ،پٹوار خانےاور کئی دیگر ذرائع سے یہ رسہ گیر قوم کا پیسہ مال غنیمت سمجھ کر اکٹھا کرتے ہیں اور اگر وزارت مل گئی تو پھر سمجھیں کہ قسمت کے دھنی ٹھہرے پھر تو پانچوں انگلیاں گھی میں اور سر کڑاہی میں اور اگر وزیراعظم کا منصب مل گیا تو اپنا توشہ خانہ زندہ باد ہمارا یہ نظام 76 سالوں سے ایک جیسا ہی چلا آ رہا ہے ہمارے ہاں ہر الیکشن سازشوں سے بھرا اور اجارہ داری کی سوچ سے لدھا ہوا عوام کی امیدوں پر مسلط ہوتا چلا آ رہا ہے مگر ملک ہمیشہ تنزلی کا شکار رہا ہے۔
ملک کی تقدیر الیکشن سے نہیں اس سوچ کو عملی جامہ پہنا کر پوری ہوگی جو آئین کی کتاب کہتی ہے اور جو سوچ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں رائج ہے جہاں الیکشن کے نام پر اپنی قوموں کو ” ماموں ” نہیں بنایا جاتا جہاں ووٹ دینے والوں کو وہ حقوق دئیے جاتے ہیں جن پر ان کا حق ہوتا ہے وہ سہولیات فراہم کی جاتی ہیں جن کے ذریعے قوموں کی سوچ مثبت سرگرمیوں کو پروان چڑھاتی ہے مگر ہمارے ہاں الیکشن اپنی قوم ہی نہیں بلکے پوری دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لئے منعقد ہوتے ہیں۔
جیل میں بند ایک لیڈر نے کہا ہے کہ 8 فروری کو ہونے والے الیکشن متنازعہ ہوچکے ہیں اور پوری دنیا ان الیکشنز کو نہیں مانے گی جبکہ حقیقت یہ ہے کہ دنیا ہماری تاریخ سے باخوبی آگاہ ہے دنیا کو معلوم ہے کہ یہاں الیکشن کے نام پر کیا کیا ہوتا آیا ہے اور اس بار بھی ماضی کی نسبت کچھ کم کچھ زیادہ ہو جائے گا اور کچھ نہیں ہوگا سچ پوچھیں تو دنیا کو اب ہماری فکر نہیں ہے دنیا کے کو معلوم ہے کہ ایناں دا کج نیں ہوسکدا ۔۔۔۔۔۔۔۔