ایک تلخ حقیقت کا کڑوا گھونٹ پینا اور حالاتِ حاضرہ کی سنگینی کو بھانپ کر آنے والی نسلوں کی تباہی کا خیال یقیناً دل ہلا دینے والا ہوتا ہے ۔ زندگی کے مسائل اتنے ہیں کہ کئی بار تو قلم ریزہ ریزہ ہونے کا سوچتا ہے مگر یہ قلم کی طاقت ہی ہے کہ وہ ہر موضوع حیات پر لکھتے ہوئے اپنے آپ کو مضبوط بنائے رکھتا ہے ۔
تو بات ہو رہی ہے وقفہء اذان یعنی مشاغل دنیا کو چھوڑ کر کچھ دیر کے لیے اذان سننا ۔
میں نے دنیا کی گہما گہمی میں کئی بار جھانک کر یہ محسوس کیا کہ لوگ کوئ محفلِ سماع ، محفلِ میلاد یا محفلِ مشاعرہ یا کوئ بھی تقاریب میں لوگ اذان ہونے کے ساتھ ہی مائیک پر اعلان کرتے ہیں کہ تقریب کا باقی حصہ اذان کے وقفہ کے بعد جاری رہے گا یہ بات یہاں تک تو ادب و آداب کی عکاس ہوتی ہے اور دل کچھ لمحوں کے لیے بہت ترو تازگی ایمان کو محسوس کرتا ہے لیکن اسی اثناء میں یعنی وقفہء اذان کے دوران فورا باتیں کرنا شروع کر دیتے ہیں گو کہ تقریب روکی ہوتی ہے ۔
حیرانگی اس بات کی ہے کہ پھر اعلان تو بے معنی ہوا اس کا مقصد تو فوت ہو گیا ۔ ساتھ ساتھ رب باری تعالیٰ کی ناراضگی خوامخواہ مول لے لی ۔ لوگ ایسی باتوں اور حرکتوں پر غور نہیں کرتے کہ ہم اپنی آنے والی نسلوں کو کیا درس دے رہے ہیں کیا آپنے ہی ہاتھوں سے ادب و احترام کا گلہ نہیں گھونٹ رہے ۔
” ادب پہلا قرینہ ہے محبت کے قرینوں میں”
لیکن مثال درست ہے کہ
” جیسی کوکو ویسے بچے "
قیامت کی نشانیاں اسی طرح وقوع پذیر ہو رہی ہیں لیکن لوگ غور و خوض سے عاری اپنی دھن میں مصروف کامیابی کے متلاشی اپنے لیے تباہی کے گڑھے اپنے ہاتھوں سے کھود رہے ہیں ۔ یہ سوچے بغیر کہ وہ اپنے ساتھ ساتھ اپنی نئی نسل کو بھی انہی گڑھوں میں پائیں گے ۔
اکثریت اپنے آپ کو پڑھنے اور خود احتسابی کے عمل سے گزرنے سے قاصر ہے لیکن یہ دنیا جو وہ بنانے میں لگے ہوئے ہیں یہ عارضی ہے ۔ جو چھوڑ جانا ہے اس کے پیچھے اندھا دھند دوڑے جارہے ہیں ۔ ہائے افسوس کہ ان کو یہ خیال نہیں آتا کہ وہ کتنے بڑے خسارے میں جا رہے ہیں ۔ نفس امارہ سے جنگ کرنے کا وقت ہی نہیں ان کے پاس ۔ اس زات کو دوست بنانے کا خیال ہی نہیں آتا جو ستر ماؤں سے زیادہ پیار کرنے والی ہے ۔
کاش کہ کوئی ان میں سے سمجھ پائے کہ بقاء کامیابی ہے اپنی زات کی نفی کر لینانفسانی خواہشات سے کنارہ کش ہو جانا ہی صراطِ مستقیم پر چلنے کا پہلا قدم ہے ۔ جس نے نفس کو مار لیا اسے بقاء مل گئی ۔
میں یہاں پر یہ کہنا بھی لازمی سمجھتی ہوں کہ تمہارا نفس ہی تمہیں کامیابی سے روکتا ہے ۔ جب اس سے بچ گئے تو پل صراط سے بے خوف ہو گئے ۔ نفس ہی پل صراط ہے جس نے اس کے خلاف جنگ کی اور کامیاب ہوا تو اس نے پل صراط عبور کر لیا ۔
باتوں باتوں میں بات کہاں سے کہاں چلی گئی کہنا یہ ہے کہ ہر چھوٹی سے چھوٹی غلطی پر غور کرنا پڑے گا اگر آنے والی نسلوں کو تباہی کاریوں سے محفوظ رکھنا ہے ۔
شائد میری بات پر بہت سے لوگ غور کریں اور عمل پیرا بھی ہوں ۔ ادب و آداب کا خیال ہی نہیں رکھنا عملی نمونہ بن کر دکھانا پڑے گا ۔ اللہ کرے کہ میرے کالم کی آج کی باتیں لوگوں کے دلوں میں گھر کر جائیں جو بھٹکے ہوئے ہیں ان کے لیے مشعلِ راہ ثابت ہوں ۔
انمول گوہر/ لاہور