میرا پیارا وطن پاکستان بااثر افراد کے لئے واقعی ایک جنت ہے شاہ زیب قتل کے مرکزی مجرم شاہ رخ جتوئی سینٹرل جیل کے بجائے کراچی کے نجی اسپتال (قمرالاسلام اسپتال ) میں بالائی منزل پر شاہانہ زندگی گزار رہا تھا جبکہ نجی اسپتال شاہ رخ جتوئی کے خاندان نے کرائے پر حاصل کر رکھا ہے شاہ رخ جتوئی کو محکمہ داخلہ سندھ کے حکم پر جیل سے نجی اسپتال میں منتقل کیا گیا اور اس منتقلی کے پیچھے سندھ کی ایک اعلیٰ شخصیت کا ہاتھ ہے گذری میں واقع نجی اسپتال نیب اور اینٹی کرپشن کے قیدیوں کیلئے سہولت گاہ اور جیل کے قیدیوں کیلئے بہتر ین پناہ گاہ کے طور پر مشہور ہے ایک صاحب سیشن کورٹ جاتے جہاں شام تک گاڑی میں بیٹھ کر کاروبار کرتے تھے۔
ایک وزیراعظم بنے انہوں نے کراچی کے پہلے دورے پر پہلا فون سینٹرل جیل سے کیا اس فون کی بناء پر ایک آدمی پیرول پر رہا ہوا اور واپس نہیں گیا اور بعد میں سیاسی جماعت جوائن کرلی کراچی میں بااثر قیدیوں کو سہولتیں دینے والے سرکاری اور نجی اسپتالوں کے نیٹ ورک کا انکشاف ہوا ہے حکام کا کہنا ہے کہ مالدار با اثر قیدیوں کو شہر کے کم از کم پانچ نجی اسپتالوں میں رکھا جاتا رہا ہے ایان علی لاکھوں ڈالر لیکر نکل گئی کوئی نہیں پکڑ سکا حریم شاہ نے ایک ویڈیو کلپ میں کہا کہ میں اتنا پیسہ آرام سے لیکر نکل گئی مجھے کوئی نہیں پکڑ سکتا کیونکہ قانون صرف غریبوں کے لئے ہے بااثرافراد کی خبریں ہم روز انہ اخبارات میں پڑھتے رہتے ہیں جیسے کراچی کے علاقے ڈیفنس میں بااثر افراد کے مسلح گارڈز نے مبینہ طور پر جلد راستہ نہ ملنے پر نوجوان کو تشدد کا نشانہ بنا ڈالا طاقت کے نشے میں چور زمیندار نے محنت کش کو انسانیت سوز تشدد کا نشانہ بنا کر اس کے بال مونڈھ دیئے گجرات کے گاؤں ڈھوک گجراں میں ظلم کے شکار 50 سالہ لیاقت کا قصور یہ تھا کہ اس کا اونٹ زمیندار الطاف کی زمینوں پر چلا گیا جس کے بعد زمیندار الطاف اپنے ساتھیوں کے ہمراہ 2 گھنٹے تک نہتے شخص پر ڈنڈے برساتا رہا جس کے بعد اس کے بال مونڈھ دیئے گئے اورلیاقت جب درد کے عالم میں بیہوش ہوا تو ملزمان فرار ہوگئے درندہ صفت ملزمان نے 14 سالہ لڑکی کو گھر کے سامنے سے اغوا کر کے اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنا ڈالا اجتماعی زیادتی کا واقعہ لاہور کے علاقے اپرمال میں پیش آیا جہاں بااثر ملزمان نے مبینہ طور پر 14 سالہ آٹھویں جماعت کی طالبہ کو اس کے گھر کے سامنے سے اغوا کیا اور بعد ازاں گیسٹ ہاؤس میں لے جا کر اسے اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنایا، یہ واقعہ ڈیفنس کے علاقے صبا کمرشل میں پیش آیا جہاں مبینہ طور پر بااثر افراد کے مسلح محافظوں نے 18 سالہ نوجوان نجم الحسن کو تشدد کا نشانہ بنایا وہ شاہ زین بگٹی کے لوگ تھے ۔
کراچی میں بااثر افراد نے معروف لوک گلوکارہ شازیہ خشک کے گھر پر حملہ کر دیا جان سے مارنے کی دھمکیوں کے باوجود پولیس کی پراسرار خاموشی نے شازیہ خشک اور اہلخانہ کو خوف میں مبتلا کر دیا ہے گوجرہ کے نواحی گاؤں 244 (گ ب) میں بوائز پرائمری سکول کے ایک حصے پر بااثر افراد نے قبضہ کر لیا ہے بااثر افراد نے نہ صرف اسکول کی عمارت میں گوبر کے ڈھیر لگا دیے بلکہ آمدورفت کے لئے اپنے گھروں سے دروازے تک نکال لئے ہیں اثر و رسوخ کی چیخ و پکار پر مشتمل واقعات تقریباً ملک کے کسی نا کسی حصے میں روزانہ کی بنیاد پر رونما ہوتے رہتے ہیں اور سماجی میڈیا کے توسط سے مرکزی میڈیا تک پہنچ جاتا ہے اور یہ واقعات ہمارے ملک کی معاشرتی تنزلی کا ڈھنڈھورا پیٹتے ہیں اور ساری دنیا کے سامنے جگ ہنسائی کا سبب بنتے ہیں پاکستان میں اقتدار کا ملنا یا اقتدار کا حصہ بننا یا بااثر افراد کی لسٹ میں شامل ہونا سمجھ لیجئے کہ زمین پر خدائی کے ملنے کے مترادف ہوجاتا ہے یہاں تک کہ وہ تمام تعلقدار اور کسی بھی طرح سے جان پہچان والے پاکستان کو اپنی خاندانی جاگیر سمجھنا شروع کردیتے ہیں اور اپنے ہی جیسے اپنے ہم وطنوں کو اپنا ملازم سمجھنا شروع کردیتے ہیں ایسے لوگوں کی سمجھ کا زاویہ ہی یکسر تبدیل ہوجاتا ہے اور اپنے کہے کو حرف آخر سمجھنا شروع ہوجاتے ہیں یہ وہ بااثر لوگ ہیں جو شا ید وی آئی پی پروٹوکول سے آگے کی یا پھر کہیں پیچھے کی چیز ہوتے ہیں جن کیلئے رکنا ٹھہرنا توہین کی بات ہوتی ہے یہ اپنی بات کو کاٹنے والے کو کاٹ دینے کا حق رکھتے ہیں قانون انکی کی جانے والی حق تلفیوں پر پردہ ڈالنے کیلئے اپنی ذمہ داریاں نبھاتا چلا آرہا ہے کاروکاری یا ونی کرنے والے یہ کوئی مذہبی انتہا پسند لوگ نہیں ہیں بلکہ یہ ایسے ہی زمینی خداؤں کی پیروی کرنے والے لوگوں کا کام ہے جو ہمارے ملک میں ہمارے اسلام کے خلاف عورتوں کے ساتھ وہ سلوک روا رکھا ہوا ہے جو کہ اسلام سے قبل عرب والے کیا کرتے تھے۔
ہمارے ملک میں معمولی جرائم میں ملوث شخص توجیل جاتا ہے اور ملک لوٹنے والا باہر ہی رہتاہے اگر اِن میں سے کوئی جیل چلابھی جائے توکوئی نہ کوئی وجہ بتاکر یا بیماری کا جواز کے بہانے باہر نکل آتا ہے جبکہ غریب کو یہ سہولت بھی میسر نہیں ہے پاکستانی جیلوں میں بہت سے مریض ایسے ہیں جو شدید بیمار ہیں کسی کو شوگر ہے توکسی کو بلڈ پریشر کا مسئلہ کوئی دل کا مریض ہے تو کوئی ٹی بی وگردوں کی بیماری کا شکار مگر انہیں کوئی بہتراطمینان بخش سہولت دستیاب نہیں ہے پاکستان میں بزنس مین سیاستدان تاجر اور نہ جانے کون کون سے طبقات باقاعدہ مافیاز کا روپ دھارچکے ہیں ان میں سے بیشتر کی بیورو کریسی فوجی اسٹیبلشمنٹ ججز اوراشرافیہ سے رشتہ داریاں ہیں ملک میں جس کی بھی حکومت ہو یہ سب کے ساتھ اس حکومت میں شامل ہوجاتے ہیں کیونکہ ان کے پیش ِ نظرفقط اپنے ہی مفادات کا تحفظ ہوتا ہے پاکستان کی تاریخ اٹھاکر دیکھ لیں آپ کو چند مخصوص خاندان ہی پاکستان کی تقدیر کے مالک نظر آئیں گے یہ لوگ ہرسال کوئی نہ کوئی بحران کھڑا کرکے کھربوں روپے کمالیتے ہیں اور غریب عوام اپنی قسمت کو کوس کر ہمیشہ جلتے کڑھتے رہتے ہیں اگر کوئی غریب شخص بھوک اور افلاس سے تنگ آ کر پانچ سو روپے کی چوری کرتا ہوا پکڑا جائے تواُسے ہمارے قانون کے محا فظ گدھے پر بٹھا کر پورے شہر میں گھماتے ہوئے بند سلاسل کر دیتے ہیں اور اگر کسی بڑے عہدے پر فائز شخص اربوں روپے کی ملکی دولت لوٹ لیتا ہے تو ہمارے قانون کے محا فظ خاموش تما شائی کا کر دار ادا کرتے ہیں یہی کیفیت ہمارے مولوی اور پیر صاحبان کی بھی ہے جو ہمیں نیکی کی راہ پر گامزن کرنے کے بجائے مذہبی فسادات اور مختلف عقائد کے چکر میں ڈال کر اپنا اپنا مفاد حاصل کرنے میں مصروف عمل ہیں افسوس ناک پہلو تو یہ ہے کہ ان ناسوروں کی وجہ سے امن و امان عدل و انصاف پیارو محبت بھائی چارہ سچائی اعتماد احترام وفاداری شرم و حیا اور احساس کا مکمل طور پر خاتمہ ہو چکا ہے یہاں تک کہ عدالتی نظام بھی مفلوج ہو چکا ہے ایسے گھنائو نے نظام میں عدل و انصاف کی توقع رکھنا بس ایک دیوانے کا خواب ہے۔
چودہ سو سال قبل ہمارے پیارے نبی ﷺ نے اپنے آخری خطبے میں تھا کہ کسی عربی کو عجمی پر اور عجمی کو عربی پر کوئی فضیلت اور برتری نہیں ہے اور نہ کسی کالے کو گورے پر اور گورے کو کالے پر فضیلت اور برتری ۔آپ ﷺ نے فرمایا خبردار! زمانہ جاہلیت کی(قبل از اسلام) تمام رسمیں میرے قدموں کے نیچے روند دی گئی ہیں آپ ﷺ نے اور ارشاد فرمایا کہ خبردار! میرے بعدگمراہ یا کافر نہ ہوجانا کہ ایک دوسرے کی گردنیں مارنے لگو یہ اس خطبے سے لئے گئے چند احکامات ہیں جو رہتی دنیا تک کیلئے دنیا کا منشور ہے یہ ہی منشور قائد اعظم نے دیا اور پاکستان کو مساوات کا نظام نافذ کرنے کے لیئے بنایا صد افسوس کہ ہم قائد کی روح کو تکلیف پہنچارہے ہیں اے قائد ہم شرمندہ ہیں کہ آپ نے ایک غلامی سے نجات دلائی لیکن ہم ان بااثر افراد اور چند مخصوص خاندانوں کے چنگل سے نہ نکل سکے۔