جرمنی معاشی اعتبار سے دنیا کا ایک بڑا ملک، سافٹ سپر پاور ہے جو ہمارے لیے ایک ماڈل بن سکتا ہے۔ جرمنی تقریباً ساڑھے آٹھ کروڑ آبادی پر مشتمل ہے۔ مجموعی داخلی پیداوار ( جی ڈی پی ) پونے چار ہزار ارب ڈالر سے کچھ زیادہ ہے۔ امریکا، چین اور جاپان کے بعد یہ دنیا کی چوتھی بڑی معیشت ہے۔ براعظم یورپ کا صنعتی طور پر سب سے زیادہ ترقی یافتہ ملک ہے۔ جرمنی پاکستان کا ایک اہم تجارتی پارٹنر ہے اور دونوں ملکوں کا تجارتی حجم تین ارب یورو سے بھی زیادہ ہے۔ جرمنی نے صنعتی نمائشوں کو کاروباری ترقی کے لیئے جیسے استعمال کیا ہے، وہ بھی ایک بہتر ماڈل ہے۔
اسی طرح جرمنی کے انجینئرنگ سیکٹر اور اس سے جڑی صنعتی ترقی پر نظر رکھنے سے باہمی تعاون کی نئی راہیں کھل سکتی ہیں۔ جرمنی کے تعلیمی نظام کا شمار دنیا کے چند بہترین تعلیمی نظاموں میں کیا جاتا ہے۔ تعلیمی شعبے میں پاک جرمن تعاون کا فروغ پاکستان کے تعلیمی شعبے میں بہتری لانے میں مدد دے سکتا ہے۔ جرمنی کے تعلیمی نظام میں موجود مواقع سے نوجوانوں کو آگاہی فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔ جرمنی کے تعلیمی اور معاشی ماڈل میں پاکستان کے لیئے کئی سبق پوشیدہ ہیں بشرطیکہ ہم سیکھنا چاہیں۔
ایک لچکدار ووکیشنل ( فنی ) تعلیمی نظام کامیاب جرمن معیشت کی بنیاد ہے۔ ووکیشنل تعلیم، سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدانوں میں تعاون کو فروغ دینے کے وسیع امکانات موجود ہیں۔ جرمنی نے جس طرح اپنے معاشرے میں ہم آہنگی پیدا کی ہے، اس کا مطالعہ بھی ہونا چا ہئے۔ پاکستان میں انفرادی طور پر بہت اچھی مثالیں موجود ہیں لیکن اداروں کی مضبوطی آج بھی توجہ کی متقاضی ہے۔ جرمنی میں ادارے مضبوط بنیادوں پر کھڑے ہیں۔ سیاسی جماعتیں جس طرح کام کرتی ہیں، انتخابات کا انعقاد کیا جاتا ہے، مقامی حکومتوں کا نظام کیسے کام کرتا ہے۔ ان سارے امور پر نگاہ ڈالی جانی چاہئے۔ پاکستانی معاشرے میں جرمنی کی طرح دلیل، منطق اور آگاہی کو اہمیت دی جانی چاہئے۔ ریاست اپنے شہریوں کا کس طرح خیال کرتی ہے، اس پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
تیزی سے بدلتی ہوئی دنیا میں عالمی تقاضوں کے مطابق اپنے آپ کو ڈھالتے ہوئے ترقی کی منازل کیسے طے کرنی ہیں، یہ جرمنی کے نظام سے سیکھا جا سکتا ہے، اور اس کے لیئے جدید دنیا میں جرمن ماڈل سے مدد لی جا سکتی ہے۔ یہ بات بحرحال طے ہے کہ جرمنی عالمی اسٹیج پر ایک بڑا کھلاڑی ہے۔ معیشت کی ترقی اور کامیابی کا دارومدار معاشی نظم و ضبط پر ہوتا ہے کیونکہ یہی نظم و ضبط معاشی سرگرمیوں کے لئے ڈھانچہ فراہم کرتا ہے۔ پاکستان اپنی معاشی بحالی کے لیئے جرمنی سے سیکھ سکتا ہے۔ جرمن محکمہ شماریات کے مطابق فولکس ویگن، مرسڈیز، بی ایم ڈبلیو اور پورشے جیسے اداروں کی بنائی ہوئی کاروں اور فاضل پُرزہ جات سے جرمنی کو اربوں یورو کی سالانہ آمدنی ہوتی ہے۔
پاکستان میں جرمن گاڑیوں کے پلانٹ لگانے کے لئے جرمن سرمایہ کاروں کو راغب کرنا چا ہئے۔ جرمنی کو بجلی بنانے میں خصوصی مہارت حاصل ہے، پاکستان کو توانائی کے شعبہ میں جرمن ٹیکنالوجی اور تجربہ سے استفادہ کرنا چاہئے۔ جنگ عظیم دوم کے بعد جرمنی کا شمار اُن ممالک میں ہوتا ہے جنہیں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ اپنے جمہوری نظام اور ایک ایسے سماجی نظام کے ساتھ، جس میں سماجی بہبود کے ساتھ ساتھ اقتصادی پہلو کو بھی مدنظر رکھا گیا ہے۔
جرمنی دنیا بھر کے لئے کشش کا حامل ہے۔ یہ بات بھی اہم ہے کہ یہ ملک یورپ میں ایک قائدانہ اور پوری دنیا میں ایک انتہائی اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ پاکستان کو جرمنی کے ساتھ اپنے تجارتی و اقتصادی روابط کو مضبوط بنانا چاہئے۔ جرمنی کا سیاسی و اقتصادی نظام ایک رول ماڈل کی حیثیت رکھتا ہے، اس نظام سے ہم بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ پاکستان اور جرمنی کے درمیان تجارت کے دو طرفہ مواقع مزید بڑھائے جا سکتے ہیں، جس کے لئے دونوں حکومتوں اور نجی شعبوں کو مشترکہ جدوجہد کرنا ہو گی۔