اسٹاک ہوم(رپورٹ:زبیر حسین)سویڈن میں ملک بدریوں کا سلسلہ فقط ایشیائی ، عرب اور افریقی ممالک سے آئے مہاجرین تک ہی محدود نہیں، برطانیہ کے ہزاروں شہری بریگزٹ کے بعد سویڈن سے ڈی پورٹ کردئیے گئے، 74 سالہ برطانوی شہری کتھلین پولے کی ملک بدری کے فیصلے پر سویڈن کی امیگریشن تنقید کی زد میں، یورپین کمیشن نے سویڈن حکومت سے رابطہ کرلیا۔
تفصیلات کے مطابق سویڈن مہاجرین کی ملک بدریوں کے حوالے سے یورپ کا ایک ایسا ملک ہے جس نےبرطانیہ کے ہزاروں شہریوں کو ملک بدر کردیا ، بریگزٹ کے بعد یورپی یونین نے یورپ میں مقیم ایسے لاکھوں برطانوی شہریوں کو یورپ چھوڑنے کا حکم جاری کیا تھا جن کے پاس یورپ میں رہنے کا کوئی قانونی جواز نہیں تھا۔
اس سلسلے میں سال 2020 سے لے کر ستمبر 2022 تک یورپ سے تقریباً 2250 برطانوی شہریوں کو ڈی پورٹ کیا گیا جس میں آدھے سے زائد افراد سویڈن نے ملک بدر کئے۔
بریگزٹ کے بعد یورپ میں مقیم برطانوی شہریوں نے قانونی طور پر یورپی ممالک میں رہنے کے لئے درخواستیں جمع کروائیں تھیں مگر چند افراد کی درخواستیں اس لئے مسترد ہوئیں کہ ان کے پاس یورپ میں رہائش کے لئے کوئی جواز نہیں تھا۔
گزشتہ برس سویڈن نے ایک ایسے برطانوی شہری کو ملک بدر کیا جو 21 سال سے سویڈن میں مقیم تھا جس پر برطانوی حکومت نے برہمی کا اظہار کیا تھا۔سویڈن اب دوبارہ سے یورپی یونین کی جانب سے تنقید کی زد میں ہے کیونکہ 74 سالہ الزایمر کی مریضہ کتھلین پولے کو برطانیہ ڈی پورٹ کیا جارہا ہے۔
کتھلین نے سویڈن میں رہائش کےلئے درخواست جمع کروائی تھی مگر ان کا برطانوی پاسپورٹ ایکسپائر ہوچکا ہے جس کو جواز بنا کر سویڈن کی امیگریشن نے ان کو ملک بدری کا فیصلہ سنا دیا۔
سویڈش بارڈر پولیس نے گزشتہ ماہ کتھلین کے گھر کی تلاشی کی تاکہ کوئی ایسی دستاویز مل سکے جس سے ان کو ملک بدر کیا جاسکے۔ یورپی یونین کا کہنا ہے کہ اس طرح کے ضعیف اور بیمار افراد کےلئے ملک بدری کا فیصلہ ناقابل قبول ہے۔