ے ایمان اور اقتدار سے چپکے رہنے و اپنی ناک سے آگے دیکھنے کی سکت نہ رکھنے والے اقتدار کی کرسی سے ہر حالت میں چپٹے رہنے کے خواہش مندسیاست دانوں نے قائد کے پاکستان جو بے شمار قربانیوں کے نتیجے میں حاصل ہوا سب نے اپنے آقائوں کے آگے سر جھکاتے ہوئے قائد اعظم کے اس عظیم ملک کو آج IMF کے کالونی میں تبدیل کردیا ہے 1947ء سے ہی انگریز چلا تو گیا مگر اپنے ایجنٹوں کو جاگیریں سپرد کرکے انہیں ملک کا روح رواں بناگیا ۔جو انگریزوں ہی کے اشارے میں انکے قائم مقام کے طور پر انکی منشاء کے مطابق کام کرتے رہے اور عوام کو اپنا غلام بناکر اپنی جاگیروں میں دن دوگنی رات چوگنی اضافہ کرتے رہے ۔ انگریزوںکے غلامو ں کی خواہش کے خلاف اس ملک نے ایٹم بم بنایا ، کشمیر کی آزادی کیلئے اپنا دو ٹوک موقف رکھا ، ایٹم بم بنانے سے عالمی طاقتوں نے منع کیا مگر انکی ایک نہ سنی گئی اور ایٹم بم بنا لیا ۔
عالمی طاقتوںنے پاکستان کو مزا چکھانے کی ٹھان لی ، اور نہ دانستہ نہیں بلکی مکمل سازش کے ذریعے ہمارے غیر محب وطن سیاست دان انکے آلہ کار بنے رہے ، آج پاکستان دشمن طاقتوں کو پاکستان کی ایٹمی طاقت ختم کرنے کی خواہش نہیں چونکہ انہوں نے پاکستان کو سخت ترین معاشی بحران میں دکیل دیا گیا ، اب انہیں کہنے کی ضرورت نہیں کہ کشمیر کو بھول جائو، ہم اپنے معاشی بھنور میں اسقدر پھنس چکے ہیں کہ اس ملک کے عوام کو دو نہیں بلکہ ایک و قت کی روٹی کا سوچنے پر مجبور کردیا گیا ، کہا جاتا ہے کہ عوام کے پاس پیسہ بہت ہے جبکہ وہ عوام نہیں خواص ہیں جن میں نوے فیصد وہ ہیں جنہوںنے دونمبر کام کئے ہیں ذخیرہ اندوزی کی ہے یا ملک کی ترقی کا بجٹ کھایا ہے ہماری اسٹبلشمنٹ نامی چیز بھی اسکا حصہ بنی رہی اور اپنے مفادات کے تحت اپنے من پسند لوگو ں کو حکومت کی کرسی فراہم کرتی رہی اب صورتحال یہ ہے کہ پاکستان جس بحران میں پھنس گیا ہے۔ اب اس سے نمٹنے کی صلاحیت اسٹیبلشمنٹ اور سیاسی قوتوں دونوں میں نہیں رہی۔ اسٹیبلشمنٹ کی ہیئت کوتبدیل کرنا فوری طور پر ممکن نہیں لیکن کیا ملک میں ایسی نئی سیاسی قوت ابھرنے کا امکان موجود ہے، جو اپنے طور پر بڑے اور انقلابی فیصلے کر سکے؟ہر گز نہیں ہم خوامخواہ امتحانوں سے ہی گزرے گے میرے خیال میں نئی سیاسی قوت ابھرنے کا فوری طور پر کوئی امکان نہیں ہے لیکن اس کی ضرورت بہت شدت سے محسوس کی جا رہی ہے اور حالات بھی بن رہے ہیں لیکن اس امکان یا امید میں حالات سے لاتعلق رہنا تمام سیاسی جماعتوں کو یکساں مطعون کرنا یا پھر غیر سیاسی قوتوں کی طرف دیکھنا درست نہیں ہو گا۔
اس بحران میں جو سوچ پیدا کی جا رہی ہے یا پیدا ہو رہی ہے، وہ انتہائی خطرناک ہے۔یہ ٹھیک ہے کہ معیشت کو بہتر بنانے کے لئے سیاسی حکومتیں وہ نہیں کر سکی ہیں، جو انہیں کرنا چاہئے تھا کیونکہ طفیلی معیشت میں وہ کچھ نہیں کر سکتیں، جسے عالمی مالیاتی ادارے اپنی ڈکٹیشن پر چلاتے ہوں۔ سیاسی حکومتیں اس بحران کی ذمہ دار بھی نہیں ہیں، جس پر وہ تنقید اور نفرت کی سزاوار ہیں۔ تحریک انصاف کی جگہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت لانے یا مسلم لیگ (ن) کی جگہ پیپلز پارٹی کی حکومت لانے یا کسی بھی سیاسی حکومت میں بار بار وزرائے خزانہ تبدیل کرنے سے معیشت درست نہیں ہو گی۔ سیاسی حکومتوں کی جگہ آمرانہ یا مطلق العنان فوجی حکومتیں قائم کرنے سے بھی مسئلہ حل نہیں ہو گا۔ یہ ٹھیک ہے کہ فوجی حکومتوں کے ادوار میں قدرے معاشی استحکام رہا ہے لیکن اس عارضی معاشی استحکام یا کسی حد تک سرمائے کی عارضی فراوانی سے ہی اصل تباہی آئی۔ مسئلے کا بتدریج حل صرف جمہوری استحکام سے ہی ممکن ہے۔ پاکستان کی فوجی حکومتوں کو بہت زیادہ بیرونی امداد ملی ہے۔ یہ امداد پاکستان کی معاشی ترقی کے کیلئے نہیں بلکہ سکیورٹی مقاصد کے لئے ملی ہے۔ یوں کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان کو سیکورٹی سروسز کا بڑا معاوضہ دیا جاتا رہا ہے۔
یہ معاوضہ بھی زیادہ ترقرضوں کی صورت میں تھا۔ پاکستان سیٹو اور سینٹو جیسے عالمی دفاعی معاہدوں کا رکن تھا۔ پاکستان کو امریکہ اور اس کے حواری سرمایہ دار ملکوں سے دل کھول کر ڈالرز دیئے گئے اور پاکستان پر قرض کا بوجھ بڑھتا رہا۔ اس خوش حالی نے پاکستان کی معیشت کا قومی جوہر ہمیشہ کے لئے ختم کر دیا اور ایک قومی معیشت طفیلی معیشت میں تبدیل ہو گئی۔ قومی سرمایہ داری کی بجائے اجارہ دار اور کرونی سرمایہ داری نے جنم لیا۔ صنعت اور تجارت مخصوص لوگوں اور گروہوں کے ہاتھ میں چلی گئی۔ زراعت کو شعوری طور پر ابھرنے نہیں دیا گیا۔ زرعی زمینیں بھی مخصوص لوگوں اور گروہوں میں تقسیم کر دی گئیں۔ معاشی عدم تقسیم میں اضافہ ہوا۔ صوبوں اور چھوٹے طبقات میں احساس محرومی اور نفرت نے جنم لیا۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں پاکستان کو دہشت گردی کے خلاف نام نہاد عالمی جنگ میں جھونکنے پر سیکورٹی سروسز کا بڑا معاوضہ امداد کم قرضے کی شکل میں ملا۔ اس دور میں بہت ڈالرز آئے، جو بہت کم شرح میں ترقیاتی کاموں پر بھی خرچ ہوئے۔
ملنے والا زیادہ سرمایہ سیکورٹی مقاصد کے لئے خرچ ہوا۔ اس دور کی نام نہاد خوشحالی نے معیشت کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دی۔جب عالمی طاقتوں نے آمروں کے ذریعہ اپنے مقاصد پورے کرلئے، ان کی مزید ضرورت نہ رہی اور ڈالرز کی فراہمی بھی انہوں نے کم کر دی تو پھر پاکستان میں سیاسی حکومتیں قائم کی گئیں یا ’’جمہوریت‘‘ بحال کی گئی۔ اگرچہ جمہوریت کی بحالی کے لئے تحریکیں بھی چلیں لیکن جمہوریت کی بحالی ان تحریکوں کی وجہ سے نہیں ہوئی۔ سیاسی اور معاشی طاقت مکمل طور پر اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھ میں رہی۔ اس لئے سیاسی جماعتیں اقتدار کے حصول کے لئے اسٹیبلشمنٹ سے سمجھوتہ کرتی رہی اور اسٹیبلشمنٹ سیاسی جماعتوں کو آپس میں لڑا کر اپنی شرائط پر ان سے سمجھوتے کرتی رہیں۔ یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔ حکمران عوام کو یہ نہیں بتارہے کہ گزشتہ ساڑھے چھ دہائیوں سے ہم مسلسل آئی ایم ایف سے قرض پر قرض لیے جارہے ہیں تو معیشت آج بھی زوال آمادہ کیوں ہے؟
قوم کو یہ بھی نہیں بتایا جارہا ہے کہ قرض کی مد میں لی جانے والی رقم کتنی کتنی اور کہاں کہاں خرچ ہوتی ہے اور قرض لیتے ہوئے اس کی واپسی کے لیے کوئی منصوبہ بندی بھی کی جاتی ہے یا بس کشکول آئی ایم ایف کے سامنے رکھ دیا جاتا ہے اور پھر اس کی مرضی وہ اس میں جتنے چاہے سکے ڈال دے اور بدلے میں جو شرائط چاہے ہم سے منوا لے آئی ایم ایف کے قرضوںسے اب صاحب ثروت افراد کے معیار زندگی پر بھی منفی اثرات مرتب کرے گا ،بے روزگاری اور مہنگائی جرائم کو جنم دیتی ہے ملک کی پولیس بھی اس دنیا میں سانس لیتی رہی وہ اپنی ضروریات کیلئے جرائم پیشہ افراد کی پشت پناہی کرتی ہے جس سے قدم قدم پر رشوت اور جرائم جنم لیتے ہیں کاش ہمارے ملک میںفیصلہ سازوں می کوئی ایسی شخصیت جو فی الحال نظر نہیں آتی جو مجبورا قرض تو لے جو اب ناگزیر ہوچکا ہے معاشی بھنور سے نکالنے کی بہتر رائے دے سکے ، قریبی دوست ممالک بھی پاکستان کی مدد کرکے تھک چکے ہیں، کرسیوںکے شوقین اپنی روش نہیں چھوڑ رہے اور صرف اور صرف الزام تراشیوں میں مصروف ہیںیہ مسئلہ شہری عوام کا ہے اندرونی علاقوں میں رہنے والے جو اکثریت میں ہے انکا نہیں ۔