ذوالفقارعلی بھٹو کی شہادت پاکستان کی تاریخ کا سیاہ ترین باب ہے۔

0

آج سے44 سال پہلے4 اپریل 1979کو پاکستان کے پہلے منتخب وزیر اعظم اور پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو کو تختہ دار پر چڑھا کر شھید کیا گیا آج دنیا کے اس عظیم لیڈر کا44 واں یوم شھادت ہے جس نے پاکستان میں آئین و قانون کی حکمرانی کے لئے اور غریب عوام کے حقوق کے لیئے جدوجہد کرتے ہوئے اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا مگر اپنےاصولوں پر کوئی سودے بازی نہیں کی ، اس مرتبہ پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت نے ماہ رمضان المبارک کے مقدس مہینے کے احترام میں گڑھی خدابخش بھٹو میں مرکزی جلسہ نہ کرنے کا فیصلہ کیاہے۔ پارٹی قیادت کی ہدایت کے مطابق شہید ذوالفقار علی بھٹو کا 44 واں یوم شہادت ملک کے تمام ضلعی ہیڈکوارٹرز میں منایا جائیگا اس سلسلے میں صوبہ سندھ میں پیپلز پارٹی سندھ کے صدر سینیٹر نثار احمد کھڑو نے سندھ کے تمام ڈویژنل ہیڈ کوارٹرز کا دورہ کیا اور پارٹی کے اجلاس منعقد کروائے جس میں پارٹی کے منتخب نمائندوں، ڈویژنل اور ضلعی عہدیداروں کے علاوہ پارٹی کارکنوں نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔پارٹی کارکنوں کو ہدایات دی گئی ہیں ضلع سطح پر شہید بھٹو کے 44 ویں برسی انتہائی احترام کے ساتھ منائی جائے اور ان کی روح کو ایصال ثواب پہنچانے کی خاطر قرآن خوانی اور دعائیہ تقریبات منعقد کی جائیں۔ واضع رہے کہ گذشتہ سال مارچ 2022 کے آغاز میں پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے مہنگائی اور بے روزگاری اور عمران خان کی حکومت کے خلاف ملک گیر لانگ مارچ کا آغاز کیا تھا۔ کراچی سے شروع ہونے والا لانگ مارچ 26 مارچ 2022 کو اسلام آباد میں اختتام پذیر ہوا۔ پیپلزپارٹی کی لانگ مارچ کے ملک کی سیاسی درجہ حرارت میں اضافہ ہوا اور عمران خان کے اتحادیوں نے ان ساتھ دینا چھوڑ دیا اور دیگر عوامل کی وجہ سے دو ہفتوں کے بعد 10 اپریل 2022 کو عمران خان کی حکومت کا خاتمہ ہوا اور پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ پی ڈی ایم اور ان کی اتحادی جماعتوں کی حکومت قائم ہو گئی جس میں پاکستان پیپلزپارٹی بھی شامل ہے۔

پی ڈی ایم کی حکومت میں پاکستان مسلم لیگ ن کے صدر میاں شہباز شریف کو ملک کا وزیر اعظم پاکستان منتخب کیا گیا جبکہ پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے وزیر خارجہ کا عہدہ سنبھال لیا۔ یہ ایک عجیب اتفاق ہے شہید ذوالفقار علی بھٹو کا 44 واں یوم شہادت کے علاوہ پی ڈی ایم حکومت کی پہلی سالگرہ اور 1973 کے آئین کا گولڈن جوبلی اپریل 2023 میں منائے جا رہے ہیں۔ واضع رہے جیسے ہی پی ڈی ایم اور ان کی اتحادیوں نے حکومت سنبھالی تو پاکستان میں سیاسی عدم استحکام اپنے عروج پر تھا۔ اس کے علاوہ پاکستان سمیت آزاد کشمیر میں دو ماہ تک مسلسل بارشوں اور سیلاب نے ملک کے اندر ہرطرف تباہی مچادی، سینکڑوں لوگ اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے اور کروڑوں لوگ بے گھر اور متاثر ہوئے ہیں سیلاب متاثرین ابھی تک روڈ، رستوں اور نہروں کے کناروں پر بڑی مشکل سے اپنی زندگی گزار رہے ہیں ان حالات میں پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین اور وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے سیلاب متاثرین کی بحالی کیلئے دن رات محنت کی اور دنیا بھر کے ممالک کے طوفانی دورے کرکے اپنے نانا شہید بھٹو کی یاد تازہ کروا دی۔ چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی اپیل پر دنیا بھر کے ممالک نے اربوں ڈالر امداد دینے کا اعلان کیا۔ ملک کے اندر پچھلے ایک سال سے مسلسل سیاسی عدم استحکام اور بحرانی کیفیت برقرار ہے۔ ان حالات کے باوجود پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین اور وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے پارلیمینٹ میں اپنے خطاب کے دوران کہا ہے کہ بے شک ہمیں کسی کی شکل پسند نہ ہو پھر بھی جمہوریت کی بقا اور ملک کو موجودہ بحران سے نکالنے کیلئے ان کے ساتھ بات چیت اور بیٹھنے کیلئے تیار ہیں۔ چیئرمین بلاول بھٹو کا قومی اسمبلی میں خطاب ایک تاریخی خطاب تھا جس میں انہوں نے اپنی سیاسی بلوغت اور تدبر کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے آپ کو ایک عظیم لیڈر اور سیاستدان ثابت کردیا۔ بہرحال آج کا اصل موضوع پاکستان پیپلزپارٹی کے بانی چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو کی یوم شہادت ہے۔ 4 اپریل 1979 پاکستان کے تاریخ کا سیاہ ترین دن تھا جس دن دنیا کے ماڈل ڈکٹیٹر فوجی آمر جنرل ضیا نے ایک جھوٹے مقد مے میں پاکستان کے پہلے منتخب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دیکر شہید کر دیا۔

شہید ذوالفقار علی بھٹوکی سیاسی زندگی پر کچھ نہ کچھ ضرور لکھنا پڑتا ہے ذوالفقار علی بھٹو نے 1965 میں پاک بھارت جنگ کے بعد دنیا کے اس وقت کی طاقتور قوتوں کی مداخلت کی وجہ سے 10 جنوری 1966 کو بھارت اور پاکستان کے درمیان ایک امن معاہدہ ہوا تھا. تاشقند معاہدے کے بعد صدر ایوب خان اور شہید بھٹو کے اختلافات شروع ہو گئے جس کی وجہ سے شہید ذوالفقار علی بھٹو ایوب کابینہ سے الگ ہو کر عوام میں جانے کا فیصلہ کیا ایوب خان کی حکومت سے علیحدگی کے بعد شھید ذوالفقار علی بھٹو سب سے پہلے راولپنڈی سے بذریعہ ریل گاڑی کراچی کے لئے روانہ ہوئے شہید بھٹو پہلے مرحلے میں لاہور پہنچے جہاں عوام نے ان کا پر جوش استقبال کیا اس کے بعد وہ لاڑکانہ سے ہوتے ہوئے کراچی پہنچے۔ ہر جگہ اور ہر مقام پر عوام نے شہید بھٹو کا والہانہ استقبال کیا عوام کی جانب سے پرجوش استقبال نے شہید بھٹو کےحوصلوں کو مزید بلند کیا اس طرح وہ ایوبی آمریت کے خلاف میدان میں نکلے اور ایک سیاسی جماعت بنانے کا فیصلہ کیا۔ اس سلسلے میں بھٹو صاحب نے اپنے قریبی ساتھیوں سے مشورے کے بعد 1967 میں پاکستان پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی۔

شھید ذوالفقار علی بھٹو ایک ذہین اور مدبر سیاستدان تھے انہوں نے اپنے اصولوں پر کبھی بھی سودے بازی نہیں کی اور آخری دم تک سامراجی قوتوں سے لڑتے رہے اور ملک کی سالمیت اور غریب عوام کی حقوق کے لیئے لڑتے لڑتے شہادت کا جام نوش کیا۔ واضع رہے 1971 میں جنرل یحییٰ خان کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے ملک دو لخت ہوا اور باقی ماندہ پاکستان کا اقتدار ذوالفقا ر علی بھٹو کے حوالے کیا گیا جس وقت اقتدار شھید بھٹو کے حوالے کیا گیا تو اس وقت پاکستان اپنے بد ترین سیاسی اور اقتصادی دور سے گذر رہا تھا اور پاکستان کا وجود زخمی ہو چکا تھا 1971کی جنگ کے بعد فوج کا مورال بھی ختم ہو چکا تھا اس لیئے پاکستانی قوم کو ایک کرشمہ ساز لیڈر کی ضرورت تھی اس وقت عوام کی نظریں اور امیدیں ذوالفقار علی بھٹو میں جمی ہوئی تھیں کیوں کہ ذوالفقار علی بھٹو خداداد صلاحیتوں کے مالک تھے اور وہ ایک مسیحا کے روپ میں پاکستانی عوام کے سامنے نمودار ہوئے۔ بہرحال انہوں نے باقی ماندہ پاکستان کا اقتدار سنبھالتے ہی سب سے پہلے خارجہ پالیسی پر زیادہ توجہ دی انکی ذھانت اور دور اندیشی کی وجہ سے عالمی دنیا کے اندر پاکستان کی کھوئی ہوئی ساکھ اور وقار دوبارہ بحال ہوئی- پڑوسی ملک چین کے علاوہ مڈل ایسٹ سے تعلق رکھنے والے عرب ممالک سے بھی پاکستان کے دوستانہ تعلقات قائم ہوئے ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے قائدانہ صلاحیتوں اور سیاسی بصیرت کے بدولت شملہ معاہدے کے تحت ھندوستان سے نوے ھزار سے زائد فوجی جوانوں اور پانچ ھزار مربع میل زمین کو آزاد کرواکر ایک اہم کارنامہ سرانجام دیا۔ انہوں نے اپنے دور حکومت میں مختلف ترقیاتی منصوبوں پر کام شروع کروایا سب سے بڑی بات یہ ہے کہ شہید بھٹو نے 1973 میں ملک کو ایک متفقہ آئین دیا جو کہ ایک اہم کارنامہ ہے۔ اس سال اپریل 2023 میں شہید بھٹو کی جانب سے دیئے گئے 1973 کے آئین کی گولڈن جوبلی منائی جا رہی ہے- بھٹو صاحب نے اپنے دورحکومت میں بہت سارے اہم کارنامے سرانجام دیئے ہیں جس میں پاکستان سٹیل مل کا قیام، ٹیکسلا میں ہیوی میکینیکل کامپلیکس، میٹرک تک تعلیم مفت، مزدورں کی بھلائی کے لیئے لیبر پالیسی، بے زمین ہاریوں میں مفت زمین کی تقسیم اور لاکھوں بے روزگار لوگوں کو بیرون ممالک روزگار دلانے کے علاوہ ان گِنت منصوبوں پر عمل شروع کروایا تھا۔ انہوں نے عالم اسلام کو ایک پلیٹ فارم پر متحد کرنے کے لئے 1974 میں پنجاب کے شہر لاہور میں اسلامی سربراہی کانفرس کا انقعاد کروایا جو کہ شہید بھٹو کا بہت بڑا کارنامہ تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو ایشیا کے سب سے بڑے لیڈر تھے جس کی وجہ سے انہیں فخر ایشیا بھی کہا جاتا ہے- ذوالفقار علی بھٹو بیشمار صلاحیتوں کے مالک تھے انکی یاداشت بھی بہت تیز اور حیران کرنے والی تھی- وہ ٹیبل ٹاک کے بھی بڑے ماہر تھے اور بات چیت کے ذریعے اپنے مخالفین کو شکست دینے کی صلاحیت رکھتے تھے اور عوامی جلسوں میں عوام کو متاثر کرنے کا بھی فن رکھتے تھے ذوالفقار علی بھٹو انتہا ئی ذہین اور حاضر دماغ تھے لیکن افسوس سامراجی قوتوں اور انکے ایجنٹوں نے سازش کرکے ایک حقیقی عوامی رہنما کو پھانسی دلوا کر بہت بڑا ظلم کیا ہے۔ امریکی سامراج اور دیگر سازشی قوتوں نے مل کر بھٹو صاحب کو اصولی طور پر اپنے راستے سے ہٹانے اور جسمانی طور ختم کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا- سازشی قوتیں موقعے کی تلاش میں تھیں۔ وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے اپنی حکومت کے آخری دنوں میں ایک جونیئر جنرل ضیا الحق کو چیف آف آرمی اسٹاف مقرر کیا۔

واضح رہے جنرل ضیا بھٹو صاحب کی خوشامد کیا کرتے تھے ان سے جھک کر ملا کرتے تھے شھید بھٹو نے جنرل ضیا الحق کو اپنا وفادار سمجھ کر انہیں چیف آف آرمی اسٹاف مقرر کیا تھا دراصل جنرل ضیاء ظاہری طور پر بھٹو صاحب کی خوشامد کیا کرتے تھے مگر دل میں کینہ اور بغض اور اقتدار کا ہوس رکھتے تھے۔ جنرل ضیا کو آرمی چیف لگانا بھٹو صاحب کی بڑی غلطی تھی جس کی وجہ سے ان کی منتخب حکومت کا خاتمہ ہوا آخرکار انہیں جھوٹے مقدمے میں پھانسی گھاٹ پر جانا بڑا۔ بھٹو صاحب نے جب وقت سے پہلے عام انتخابات کا اعلان کیا تو ان کی مخالفین اور سازشی قوتوں کا کام آسان ہوا اور ان سازشی عناصر نے جنرل ضیا الحق کے ساتھ مل کر اپنے طے شدہ منصوبے پر عمل شروع کیا۔ مارچ 1977 میں شہید بھٹو نے عام انتخابات کروائے ان انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی بھاری اکثریت سے کامیاب ہوئی جس کے نتیجے میں قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو ملک کے دوبارہ وزیر اعظم منتخب ہو گئے تھے مگر حزب اختلاف سے تعلق رکھنے والے جماعتوں پر مشتمل قومی اتحاد نے اپنے آقائوں اور سامراجی قوتوں کے اشارے پر 1977 میں ہونے والے انتخابات کے نتائج کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا اور دھاندلی کے الزام لگا کر نتائج کو ماننے سے انکار کر دیا اور شہید بھٹو کی منتخب حکومت کے خلاف ملک بھر میں احتجاجی مظاہروں کا آغاز کرکے ملک کے اندر جلائو گھیرائو اور انتشار پیدا کرنا شروع کردیا ان حالات کو دیکھ کر شہید ذوالفقار علی بھٹو نے اپوزیشن سے بات چیت کا فیصلہ کر لیا شہید بھٹو کی سیاسی بصیرت اور تدبر کی وجہ سے اپوزیشن سے تعلق رکھنے والے رہنمائوں نے مذاکرات اور بات چیت کے لئے آمادہ ہوئے اس طرح قومی اتحاد کے لیڈروں کو مذاکرات کے میز پر لاکر شہید بھٹو نے ایک اہم کارنامہ سر انجام دیا مذاکرات اور بات چیت کے ذریعے پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان قومی اتحاد کے درمیان ہونے والے مزاکرات کامیاب ہوئے اس طرح ملک میں دوبارہ انتخابات کروانے پر سب متفق ہوگئے تھے اور 4 جولائی 1977 کو معاھدے کا ڈرافٹ بھی تیار ہو گیا تھا مگر بد قسمتی سے اس وقت کے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل ضیا الحق جو کہ پہلے سے ہی سامراجی قوتوں کے ساتھ گٹھ جوڑ کر چکے تھے اور اقتدار پر قبضہ کرنے کا منصوبہ بنا چکے تھے انہوں نے اپنے سازشی منصوبے پر عمل کرتے ہوئے 5 جولائی 1977 کی رات کو شہید ذوالفقار علی بھٹو کی منتخب حکومت کو ختم کرکے ملک کے اندر مارشل لاء نافذ کر دیا اور منتخب وزیر اعظم کو گرفتار کر کے مری منتقل کیا گیا اس طرح ملک کے اندر دوبارہ آمریت کے دور کا آغاز ہوا۔

جنرل ضیا کا آمریت پاکستان کے تاریخ کا طویل ترین آمریت کا دور تھا جنرل ضیاء ذوالفقار علی بھٹو کے ذاتی دشمن بن چکے تھےاس لئے انہوں نے شہید بھٹو کو جسمانی طورپر ختم کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا اس لئے جنرل ضیاء نے سامراجی قوتوں کے اشارے پر بھٹو صاحب کو ایک جھوٹے قتل کے مقدمے میں ملوث کرکے آخرکار 4 اپریل 1979 میں عدالت کے ذریعے اپنے من پسند ججوں کے ذریعے پھانسی کی سزا دیکر ذوالفقار علی بھٹو کو شھید کیا گیا۔ ذوالفقار علی بھٹو کو سازش کے تحت جسمانی طور پر عوام سے ضرور سے جدا کیا گیا مگر شہید بھٹو آج بھی پاکستان سمیت پوری دنیا کے کروڑوں غریب عوام کے دلوں پر راج کررہے ہیں۔ آج بھی پاکستان کی سیاست کا محور شہید بھٹو کے حامی اورانکے مخالفین کے درمیان بٹا ہوا ہے پاکستان پیپلز پارٹی آج بھی ملک کی سب سے بڑی جماعت ہے پی پی پی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کو چاہیئے پارٹی کو مضبوط کرنے کے لیئے پارٹی کے پرانے اور قربانی دینے والے کارکنوں کو اہمیت دیں۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.

error: Content is protected !!