وطن ثانی: ایک ادب پارہ، ایک پْل

0

کتابیں معاشروں کے تہذیبی ورثے کا آئینہ اور علم کا مستقل خزانہ ہوتی ہیں۔ کسی قوم کی ترقی کا راز اس کی کتاب دوستی میں چھپا ہوتا ہے۔ ایک امریکی مفکر کا کہنا ہے کہ جو لوگ کتابیں نہیں پڑھتے اور جو نہیں پڑھ سکتے، ان میں کوئی فرق نہیں۔ تمام انسان اولاد آدم ہونے کی وجہ سے سب برابر ہیں اور ان میں کوئی فرق نہیں لیکن اس کے باوجود قرآن حکیم نے جاننے والوں اور نہ جاننے والوں کو برابر قرار نہیں دیا۔ گویا فرق اور برتری کی بنیاد علم ہے۔ اگرچہ یہ کہا کہ جاتا ہے کہ یہ صدی شائد کتابیں کی آخری صدی ہے لیکن علم کے فروغ کے لئے کتاب ہمیشہ رہے گی چاہے اس کی صورت کوئی اور ہو۔کتاب اب اوراق سے ترقی کرتی ہوئی ای بک اور آڈیو بک کی صورت بھی اختیار کرچکی ہے۔

دنیا کی ترقی یافتہ اقوام اپنے اہل علم ، دانشوروں اور مصنفین کی عزت افرائی کرتیں ہیں۔ سویڈن میں تمام کرنسی نوٹوں پر ملک کے ادیبوں اور مصنفین کی تصاویر دی گئی ہیں۔ اس سے علم دوستی اور کتاب کی اہمیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ ترقی یافتہ اقوام کتاب کے فروغ کے لئے کوشاں رہتی ہیں اور تعلیمی اداروں میں طلبہ میں غیر نصابی کتابوں کے مطالعہ کے لئے فروغ دیا جاتا ہے۔ پبلک لائبریریوں کے ساتھ متحرک لائبریریاں جو بسوں اور کشتیوں کی صورت میںہوتی ہیں، وہ بھی عام ہیں۔ مغربی ممالک میں کتابیں خریدینا اور دوسروں کو تحفے کی صورت میں دینا عام ہے۔ یہی علم دوستی ہے جس نے اقوام مغرب کو ترقی کی معراج پر پہنچا دیا ہے۔ حقیقت یہی ہے کہ کتاب دوستی رکھنے والا ہی حقیقی وطن دوست ہو سکتا ہے۔

پاکستان میں نیشنل بک فاؤنڈیشن جو ایک قومی ادارہ ہے جو معیاری کتب طبع کرکے بہت کم داموں پر ملک بھر میں مہیا کرتا ہے۔ اس ادارہ کے ایم ڈی مراد علی مہمند کی سربراہی میں بہت متحرک ہے اور ملک کے طول و عرض میں کتاب میلوں کے ذریعے کتاب بینی کے فروغ کے لئے اہم کردار ادا کررہے ہیں۔ نیشنل بک فاؤنڈیشن کی جانب سے ادیبوں اور مصنفین کی کتابوں کی تقریب رونمائی اور پذیرائی منعقد کرنا بہت مستحسن کوشش ہے۔ اس سے نہ صرف کتابیں متعارف ہوتی ہیں اور کتاب بینی کا حلقہ وسیع ہوتا ہے بلکہ کتاب لکھنے والوں کی بھی عزت افزائی ہوتی ہے۔ اسی سلسلہ میں نیشنل بک فاؤنڈیشن نے احمد فراز آڈیٹوریم میں راقم (عارف کسانہ) کی کتاب "وطنِ ثانی” کی تقریب پزیرائی منعقد کی۔ کسی مصنف کی عدم موجودگی میں کتاب کی تقریب پذیرائی کا نعقاد بھی منفرد واقعہ ہے۔ اس تقریب کا انعقاد اور اس میں حاضرین کی بڑی تعداد کی شرکت اس بات کا ثبوت ہے کہ علم دوست لوگ آج بھی کتابوں سے جڑے ہیں اور ان کے ذریعے معاشرے میں مثبت تبدیلی لانے کا عزم رکھتے ہیں۔ تقریب میں زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے نامور شخصیات نے شرکت کی، جن میں دانشور، سفارت کار، ادیب ،علمی شخصیات اور طلبہ شامل تھے۔

وفاقی ٹیکس محتسب ڈاکٹر آصف جاہ، سویڈن اور فن لینڈ میں پاکستان کے سفیر بلال حئی، سپین میں پاکستان کے سفیر ڈاکٹر ظہور احمد اور قومی ہاکی ٹیم کے سابق کپتان، مینجر اور کوچ اصلاح الدین صدیقی نے خصوصی پیغامات ارسال کئے۔ مقررین جن میں سابق سفیر افراسیاب مہدی ہاشمی قریشی، وفاقی ٹیکس محتسب کے سابق مشیر محمد صدیق، سابق کیبنٹ سیکرٹری سید ابو احمد عاکف، بریگیڈیئر ریٹائرڈ محمد سلیم، نیشنل بک فاؤنڈیشن پاکستان کے ایم ڈی مراد علی مہمند اور نازیہ رحمٰن شامل تھے، ان کا کہنا تھا کہ "وطن ثانی” دو معاشروں کے درمیان میں رابطے اور باہمی تعاون کی بہترین کوشش ہے۔ یہ ، پاکستان اور سویڈن کے درمیان ایک پْل کی حیثیت رکھتی ہے۔

اس کتاب کے مصنف تین دہائیوں سے سویڈن میں مقیم ہیں اور یہ ان کے تجربات اور مشاہدات کا نچوڑ ہے، جس میں سویڈن کے سماجی، ثقافتی، تعلیمی اور اقتصادی نظام کو نہایت خوبصورت انداز میں پیش کیا ہے۔ ۔ یہ تصنیف نہ صرف سویڈن کو اردو قارئین سے روشناس کراتی ہے بلکہ ان کے لیے ایک رہنما کا کردار بھی ادا کرتی ہے۔ وطنِ ثانی ان موضوعات پر مبنی ہے جو عام طور پر اردو قارئین کی پہنچ سے دور رہتے ہیں۔ کتاب میں سویڈن کی سماجی بہبود، نظام حکومت، سیاسی اور تعلیمی نظام، بنیادی حقوق اور قوانین، ایجادات اور سائنسی تحقیقات، رسم و رواج اور اہم ایام، کامیاب سویڈش شخصیات، پاک سویڈش تعلقات اور نوبل انعام جیسے منفرد موضوعات پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ مختصر یہ کہ اردو میں یہ سویڈن کے بارے میں گائیڈ بک کی حیثیت رکھتی ہے۔

بنگلہ دیش میں پاکستان کے سابق سفیر افراسیاب مہدی ہاشمی قریشی جو خود بھی کئی کتابوں کے مصنف ہیں،نے غور طلب حقیقت بیان کی کہ جب بھی کوئی فاتح قوم کسی ملک پر قبضہ کرتی ہے تو اس کے علمی ورثہ کو تباہ کرتی ہے۔ یہی کام سابقہ مشرقی پاکستان میں 17دسمبر1971 کو ہوا۔ سقوط ڈھاکہ کے اگلے روز تمام لائبریوں کو جلا دیا گیا تاکہ ماضی کی تاریخ کو مٹا دیا جائے۔ سابق کیبنٹ سیکرٹری سید ابو احمد عاکف نے کتاب دوستی کو فروغ دینے کی اہمیت پر زور دیا۔ان کا کہنا تھا کہ اپنے مشاہدات اور تاثرات کو کتاب کی صورت لکھنا آسان کام نہیں بلکہ یہ ایک صدقہ جاریہ ہے، جو مصنف کو زمانوں تک زندہ رکھتا ہے۔ وطن ثانی نہایت محنت اور لگن سے سویڈن جیسے ترقی یافتہ ملک کی کامیابیوں کو اردو زبان میں منتقل کرنے کی کوشش ہے اور ایسی تصنیف پاکستان اور سویڈن کے درمیان ایک مثبت رابطے کا ذریعہ ہے۔ یہ کتاب ہمیں یہ بھی سکھاتی ہے کہ بیرون ملک رہنے والے پاکستانی اپنے علم و عمل کے ذریعے کیسے اپنے ملک کا نام روشن کرتے ہیں۔ "وطن ثانی” بلاشبہ ایک ایسا ادب پارہ ہے جو پاکستان اور سویڈن کے درمیان فکری اور تہذیبی رابطے کا ایک مضبوط ذریعہ بنے گا۔ یہ کتاب پڑھنے والوں کو سوچنے پر مجبور کرتی ہے کہ علم اور کتاب کی طاقت ہی وہ بنیاد ہے جس پر کامیاب معاشرے کھڑے کیے جا سکتے ہیں۔

Leave A Reply

Your email address will not be published.

error: Content is protected !!