غور کرنا

0

گھر کی چھت پر کھانا کھانے کے بعد چہل قدمی کرتے ہوئے خیالات کے پنچھی میرے دماغ میں اڑنے لگے ۔ بہت سے خیالات کے ساتھ ساتھ ایک پریشانی نے مجھے دبوچ لیا ۔ آنکھیں بھر آئیں آسمان کی طرف نظر اٹھائی پھر پاکستان کے حالات پر نظر دوڑائی ۔ آخر کار آئے دن ہنگامے، آفات اور تباہ کاریاں کن وجوہات کی بنا پر وقوع پزیر ہوا کرتی ہیں ۔ آخر وجہ کیا ہے ۔ اس سوال نے میرے اندر بھگدڑ مچا دی ۔ اچانک سب سے اہم وجہ میرے سامنے سر اٹھا کر کھڑی ہوگئی ۔ اف غیر منظم لائحہ عمل کے نتائج کسی بھی قوم کی تباہی کی صورت میں سامنے آتے ہیں ۔ اگر ہم کھانا بھی بے ترتیبی سے کھا لیں تو ہمارا نظام انہضام برداشت نہیں کرتا اور خرابی کا باعث بنتا ہے ۔

چاند سورج تارے زمین آسمان اور دن اور رات کی آمدورفت سب ایک ترتیب سے چل رہے ہیں ۔ جن کی باگ ڈور اللہ تبارک تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے ۔ لیکن اللہ نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا اور عقل عطا کی دو راستے سمجھا دیے اس پر چلو گے تو فلاح پاؤ گے اور اگر اس پر چلو گے تو سزا کے حقدار ہوگے ۔ بات ہو رہی تھی غیر منظم لائحہ عمل کے نتائج ہمیشہ نقصان کا پیش خیمہ ثابت ہوتے ہیں ۔ پاکستان میں بھی بد قسمتی سے کچھ ایسی ہی صورتحال ہے جس کے نتیجے میں نقصانات کا سامنا آئے روز شکل بدل بدل کر کرنا پڑتا ہے ۔مالی نقصان کے ساتھ ساتھ جانی نقصان کلیجے پر کاری ضرب لگاتا ہے ۔ میں بچپن سے یہ شعر پڑھتی آئی ہوں کہ
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا

بالکل درست کہا گیا ہے کیونکہ ہم تدبیر کیے بغیر تقدیر کو کوسنے لگ جاتے ہیں اور بیٹھے بٹھائے اللہ کی ناراضگی مول لے لیتے ہیں ۔ یعنی اپنی دنیا اور آخرت دونوں کو داؤ پر لگا بیٹھتے ہیں ۔ یہ تو اسی محاورے کے مصداق بات ہوگئی کہ
آ بیل مجھے مار

خدارا اگر وقت پر ڈیم تعمیر ہو جاتے دریاؤں اور انہار میں پانی کے تجاوز کے بارے میں بہتر منصوبہ بندی کی گئی ہوتی ۔ بہتر تدابیر کی گئیں ہوتیں تو آج ناقابل برداشت نقصانات سے بہت حد تک بچا جا سکتا تھا ۔ دریاؤں کے اردگرد ایک مخصوص علاقہ تک اگر مضبوط بند باندھے جائیں اور جہاں تک ممکن ہو دریاؤں کے آس پاس دور دراز تک لوگوں کو تعمیرات کرنے سے باز رکھا جائے ۔ اور پانی کو محفوظ کرکے بجلی پیدا کرنے کے اچھے انتظامات کیے جائیں تو کم ازکم سیلابی آفتوں سے بچاؤ ممکن ہے اور ملک کی ترقی و ترویج کے لیے پانی کا بہتر استعمال سود مند ہے ۔ افسوس تو اس بات کا ہے کہ ہم منفی رویوں کی زد سے اپنے آپ کو نہیں بچا پائے اب تک ۔ ایک دوسرے پر الزام تراشی اور کرسی کی خاطر جلسے جلوس ہنگامہ آرائیاں اور یہاں تک کے لوٹ مار ذرا ذرا سے معاملات پر دنگے فسادات اور خون خرابے لوگوں پر زیادتیاں یہ سب کیا ہے ۔ میرے مطابق ایک پڑھی لکھی اور باشعور قوم کو یہ سب کام زیب نہیں دیتے ۔ اگر یہ سب کام کسی کو زیب دیتے ہیں تو وہ بد ترین جاہل معاشرے کو ۔ ہم اپنے آپ کو کیوں بگاڑ رہے ہیں ۔ ہم مثبت رویوں سے معاشرے کی بگڑی ہوئ صورتحال کو بہتر کر سکتے ہیں ۔ ہم مظبوط قوم ہیں ۔ بس ہم نے اپنے اندر کے پتھر کو تراش کر ہیرا بنانا ہے ۔ اپنی ذہنی صلاحتیوں کو ملک و قوم کی بہتری کے لیے بروئے کار لانا ہے ۔

جس کو دیکھو وہ کھوکھلی ہنسی ہنس رہا ہوتا ہے ۔ آخر اتنی بےبسی کیوں ۔ بھئی اپنے اندر حوصلہ ہمت اور جفاکشی پیدا کرو ۔ ہم تو مسلم قوم ہیں سب سے اچھی اور بلند قامت قوم ۔ ہمیں دوسری قوموں کے لیے بہترین مثال بننا ہے ۔ مثبت سوچ کی پرواز اونچی ہو تو وہ بہترین نسلوں کے معرض وجود میں آنے کا سبب ہوتی ہے ۔ دل خون کے آنسو رو رہا ہے معصوم جانوں کے بے یارومددگار ہو جانے پر بزرگوں کو جوان بچے بچیوں کی لاشیں اٹھانے پر کیا کیا ستم نہیں ہوا دیکھ کر کلیجہ منہ کو آتا ہے ۔

مخیر حضرات اور سیاسی پارٹیاں حکومت اور فوج امدادی کاروائیوں میں لگے ہوئے ہیں ۔ ساتھ ساتھ نظام زندگی اپنے معمول کے مطابق جاری ہے ۔ ہر آنکھ اشک بار ہے کاش ایسا نہ ہوتا ۔

میرا شعر ہے کہ
درد اتنا تھا پھٹ گئیں آنکھیں
آج ٹکڑوں میں بٹ گئیں آنکھیں

اور میری اپیل ہے حکومت اور ہر آنے والی حکومت سے کہ ملک پاکستان میں ہر بڑے سے بڑے اور چھوٹے سے چھوٹے معاملات میں منظم لائحہ عمل اختیار کیا جائے اور لوگوں کو اس کی ترغیب دی جائے تو وہ دن دور نہیں کہ پاکستان بھی ترقی یافتہ ممالک میں شامل ہوجائے گا ۔ بہت قربانیاں دے کر یہ ملک حاصل ہوا ہے ۔ خدارا اس کی حفاظت کرو ۔

پاکستان زندہ باد کا نعرہ جاری رہے ۔ اللہ کرے کہ پاکستانی حکمران اور قوم شعور کی منازل طے کرتے ہوئے پاکستان کو مزید تباہ کاریوں سے بچا سکیں ۔
اللہ ہمارا حامی و ناصر رہے آمین

انمول گوہر/ لاہور

Leave A Reply

Your email address will not be published.

error: Content is protected !!
[hcaptcha]