چھ دسمبر 1971کا دن او ر مقام مشرقی پاکستان کا ضلع چاند پورتھا، پاکستان کی محبت سے سرشار رضاکار فورس کے بیس بہاری جوان جنھیں چند ہفتے قبل ہی پاک فوج کی مدد کے لیے مکتی باہنی کے باغیوں سےلڑنے کے لیے بھرتی کیا گیا تھا بلکہ فوجی تربیت اور ہتھیار بھی فراہم کئے گئے تھے، پورے مشرقی پاکستان میں ایسے بہاری جوانوں کی تعداد ہزاروں میں تھی جو پاکستان کی حفاظت کےلیے پاک فوج کے شانہ بشانہ مکتی باہنی اور بھارتی فوج سے فرنٹ لائن پر برسرپیکار تھے، آج انھیں مشن پر بھیجنے سے قبل پاک فوج کے کرنل سے ملاقات کے لیے لایا گیا تھا۔
کرنل صاحب ان بہاری جوانوں کی نہ صرف حوصلہ افزائی کررہے تھے بلکہ انھیں بتارہے تھے کہ فتح قریب ہے جلد ہی بھارت کی سازش کو نہ صرف ناکام بنادیا جائے گا بلکہ مشرقی پاکستان سے تما م غداروں کا خاتمہ کردیا جائے گا، آج ملک کو آپ جیسے محب وطن جوانوں کی ضرورت ہے جو وقت پڑنے پر ملک کے لیے جان دینے کا جذبہ رکھتے ہوں، پھر چاند پور میں ان بیس میں سے اٹھارہ جوانوں اور کرنل سمیت درجنوں پاکستانی فوجی اپنے ملک کی حفاظت کرتے ہوئے بھارتی فوج کے ہاتھوں شہید کردیئے گئے، ان ہی بیس میں سے دو بچ جانے والےاب بڑھاپے میں ان تین لاکھ بہاری محصورپاکستانیوں کو دنیا کے سامنے پاکستانی ثابت کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔
ان ہی بہاری پاکستانیوں میں سے ایک نے مشرقی پاکستان کو بھارت اور مکتی باہنی سے بچانے کےلیے چھ گولیاں کھائیں وہ آج اپنی برادری کے تین لاکھ بے وطن بہاریوں کو بنگلہ دیش میں پھنسا دیکھ کر روز جیتے اور مرتے ہیں، ایس کے ربانی کا کہنا ہے کہ ہم نے قیام پاکستان کے وقت ہندوئوں کے ظلم و بربریت کا سامنا کیا اور اکہتر میں بھارتی اور مکتی باہنی سے اپنے ملک کو بچانے کے لیےخون بہایا لیکن آج بھی ہمارے تین لاکھ پاکستانی بہاری بھائی بہنیں بنگلہ دیشی کیمپوں میں جانوروں سے بدتر زندگی اس امید پر گزاررہے ہیں کہ شاید کسی وقت ریاست پاکستان کو بنگلہ دیش میں پھنسی اپنی اولادوں پر رحم آجائے اور ہمیں وہاں سے نکال کر اپنے ملک میں لے آئے، لیکن دکھ اور افسوس اس بات پر ہوتا ہے کہ آج ریاست تیس لاکھ سے زائد افغانیوں جن میں پندرہ لاکھ رجسٹرڈ افغان مہاجرین اور پندرہ لاکھ غیر قانونی طور پر پاکستان میں مقیم ہیں، اُن کا بوجھ بخوشی اٹھائے ہوئے ہے لیکن تین لاکھ ان پاکستانیوں کو اپنانے سے انکاری ہے جنھوں نے پاکستان کی سلامتی و بقا کے لیے اپنی جانوں کا نظرانہ پیش کیا۔
جنھوں نے پاکستان کے لیے اپنی جانیں، اپنی عزتیں اور اپنی جائیدادیں گنوائیں، آج بنگلہ دیشی کیمپوں میں چھ بائی چھ کے دڑبے نما گھروں میں آٹھ سے دس افراد کے ساتھ جانوروں سے بدتر زندگی بسر کررہے ہیں، محصورینِ پاکستان کے لیے دنیا بھر میں آواز بلند کرنے والی ایک اہم شخصیت جس نے اپنی زندگی ان بے یار و مددگار بہاریوں کو پہچان دلانے کے لیے صرف کی ہے کا کہنا ہے کہ ریاست مدینہ تو اپنے ایک شہری کے لیے دنیا سے لڑ جانے والی ریاست کا نام ہے لیکن یہاں تو پاکستان کے تین لاکھ شہری اپنی ریاست سے اپنا حق مانگتے ہیں لیکن ریاست کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی، دل تو یہاں تک توڑے گئے کہ ریاست نے ان بے یار و مددگار پاکستانیوں کو اپنی ذمہ داری ماننے سے انکار کردیاہے۔
ایک خبر کے مطابق 2008میں بنگلہ دیشی ہائیکورٹ نے محصورین پاکستان کے حوالے سے ایک فیصلہ دیا تھا کہ انھیں انتخابات میں ووٹ ڈالنے کا حق دیا جائے، لیکن انھیں بنگلہ دیشی شہریت دینے کا فیصلہ نہ ہائیکورٹ نے دیا نہ بنگلہ دیشی حکومت نے کوئی قانون بنانا،مزید یہ کہ حکومت پاکستان نے محصور پاکستانیوں کو لانے کےلیے پچیس کروڑ روپے کا فنڈ قائم کیا تھا جبکہ رابطہ عالم اسلامی نے بھی اس فنڈ میں پچیس کروڑ کی امداد کی تھی لیکن اقوام متحدہ نے اس فنڈ کے غیر قانونی استعمال کے الزا م کے بعد ا س اکائونٹ کو منجمد کردیا تھا تاہم یہ فنڈ اب بھی موجود ہے جو منافع کی رقم ملا کر اب دو ارب روپے تک پہنچ چکا ہے اگر حکومت پاکستان کوشش کرے، اقوام متحدہ سے رابطہ کرکے اس اکائونٹ کو بحال کرالے تو تین لاکھ محصور پاکستانیوں کو واپس لانے میں آسانی ہوسکتی ہے، ریاست پاکستان کو اپنے تین لاکھ شہریوں کولاوارث نہیں چھوڑنا چاہئے، کیونکہ جو اپنوں کی قدر نہیں کرتا، دنیا اس کی قدر نہیں کرتی،اپنوں کی قدرکریں۔