"تم ایک عیسائی ہو اور تمہارا رنگ بھی کالا ہے،میں تم سے دوستی نہیں کر سکتا کیونکہ تم ایک ناپاک انسان ہو”حسن علی نے اس کے منہ پر تھوک کر اس وقت کہا جب وہ کلاس میں اس کے برابر والی جگہ پہ آ کر بیٹھا،حسن علی نے اسے دھکے دیئے تو وہ روتے ہوئے اس کے پاس سے اٹھ گیا،حسن کلاس کا ایک شریر لڑکا تھا،کلاس کے سب طالب علم اس کے روز بروز کے جھگڑوں سے ڈرتے تھے،اس کے برعکس وہ عیسائی بچہ چپ چپ سا رہتا،وہ کلاس میں تنہاء ہی اپنے بینچ پر بیٹھا ہوتا اور اس نے سکول کے کئی سال ایسے ہی گزار دیئے تھے،ابتداء میں حسن اسے ناپسند کرتا تھا مگر پھر اس ناپسندیدگی مزید پروان چڑھ گئی اور وہ اس سے نفرت کرنے لگا تھا،اس نے اس عیسائی بچے کی کتنی ہی بار مار پیٹ کی اور اسے زخمی بھی کیا مگر جواب میں وہ ہمیشہ خاموش رہتا اور اس نے اسے کسی قسم کا کوئی بھی رد عمل نہیں دیا تھا لیکن اس ماحول میں وہ احساس کمتری ضرور پیدا ہو چکا تھا جو کسی بھی بچے سے اس کی رعنائیاں چھین لیتا ہے۔
وہ ایک عیسائی خاندان سے تعلق رکھتا تھا لیکن اس کی سیاہ رنگت کے باعث اسے ہر شخص ناپسند کرتا تھا۔اس کا نام روجر تھا،اسے اپنے مذہب کے بارے زیادہ علم نہیں تھا مگر بچپن سے ہی چرچ میں جا کر عبادت کرنا سیکھایا گیا تھا اور وہ بہت بے دلی کے ساتھ اپنے والدین کے ہمراہ ہر اتوار گرجا گھر جایا کرتا جہاں پادری مخصوص انداز میں وہاں پر آنے والے عیسائیوں کا خیر مقدم کرتے اور بچوں کی تربیت کرتے،اس کے والدین حد سے زیادہ مذہبی تھے یہی وجہ تھی کہ اسے ہر سال پچیس دسمبر کو منائی جانے والی کرسمس پہ اپنے خاندان کے ساتھ شہر کے سب سے بڑے گرجا گھر جا کر کرسمس کا دن منانا پڑتا جہاں ملک بھر کے بیشتر عیسائی وقت گزارتے تھے۔اس کے والدین چاہتے تھے کہ وہ ایک پادری بنے مگر مذہب سرے سے ہی اس کی دلچسپی میں شامل نہیں تھا،اپنے باپ کے سخت گیر رویے کی وجہ سے وہ ان کے سامنے کبھی انکار نہیں کر سکا تھا۔یہی وجہ تھی کہ اسے پادری بننے کے لئے کراچی شہر کے ایک بڑے گرجا گھر بھیج دیا گیا جہاں تربیت دینے کے لئے نہ صرف ملکی بلکہ غیر ملکی پادری بھی آتے،وہ سب انہیں پوپ فرانسس کی مثالیں دیتے تھے۔
وہ اقلیتی باشندوں میں سے تھا یہی وجہ تھی کہ اس کے والدین نے ابتدائی تعلیم کے لئے اس کا داخلہ ایک مسلمان سکول میں کروایا تھا۔سکول میں وہ واحد طالب علم تھا جو مذہب کے اعتبار سے عیسائی تھا جب کہ وہاں پہ موجود سب بچے ہی مسلمان گھرانے سے تعلق رکھتے تھے،سکول کے ابتدائی ایام میں اس کی مسلمان بچوں سے دوستی تو ہوئی مگر پھر رفتہ رفتہ وہ سب اس سے دور ہوتے گئے کیونکہ ان کے والدین کو جس وقت یہ علم ہوا کہ وہ ایک عیسائی ہے تو انہوں نے اپنے بچوں کو سختی سے یہ تلقین کی کہ وہ اس کے قریب بھی نہ جائیں اور نہ ہی اس سے کوئی دوستی رکھیں،رہی سہی کسر اس کی سیاہ رنگت نے کر نکال دی،ان محرومیوں کی وجہ سے وہ بچپن سے ہی خود کو لاوارث سمجھنے لگا تھا کیونکہ اس کا کوئی بھی دوست نہ بن سکا تھا اور وہ دوستی کے بغیر پلا بڑا اب بلوغت تک پہنچ گیا تھا۔سکول کے بچے جو بچپن سے اس کے کلاس فیلو تھے شروع میں اسے ناپسند کرتے تھے مگر پھر وہ جیسے جیسے بڑے ہوتے گئے تو ان کی ناپسندیدگی نفرت میں تبدیل ہوتی گئی۔پھر اس نے کسی عیسائی سے بھی دوستی نہ کی اور ہمیشہ تنہاء رہتا۔میٹرک کی تعلیم مکمل ہونے کے بعد اس کے والدین نے اسے ایک بڑے چرچ میں بھیج دیا،وہ عدم دلچسپی کے باوجود بھی اپنے والدین کے سامنے احتجاج بھی نہیں کر سکا تھا،اس کے باقی بہن بھائی خوش شکل ہونے کی وجہ سے والدین کے زیادہ قریب تھے جب کہ وہ دن بدن ان سے دور ہوتا اب بہت دور جا چکا تھا،وہ ایک بڑے چرچ میں پادری بننے کے لئے کراچی شہر رہنے لگا۔اس کے دل میں مسلمانوں کے لئے نفرت پیدا ہو چکی تھی مگر اقلیت ہونے کی وجہ سے وہ کچھ بھی کرنے سے قاصر تھا۔
اس کی عمر کے اٹھارہ سال بیت گئے تھے اور وہ پچھلے تین سال سے مسلسل چرچ میں پادری اسحاق کے پاس تعلیم و تربیت حاصل کر رہا تھا،اسے پادری بننے میں کوئی دلچسپی نہیں تھی مگر یہ اس کے والد کا حکم تھا جس کے سامنے اسے سرنڈر کرنا پڑا۔پادری اسحاق پوری کوشش کر رہا تھا کہ اسے ایک اچھا پادری بنا سکے،سکول کے بعد چرچ میں بھی اس نے کوئی دوست نہیں بنایا تھا۔اس کی زندگی میں دوستوں کا ایک خلا تھا جو کبھی پر نہیں ہو سکا تھا۔
کرسمس کی آمد آمد تھی،عیسائی حلقوں میں کافی چہل پہل تھی،وہ چرچ سے بیزار ہو چکا تھا اور اس کی دلی خواہش تھی کہ وہ ہر سال چھٹیاں اپنے گھر گزارے مگر پھر یہ سوچ کر اس نے خاموشی اختیار کر لی کہ اس کے والدین کو کبھی اس کا خیال ہی نہیں آیا تو وہ کیسے وہاں پر جائے۔اس کے والد ہر مہینے اس کا باقاعدہ جیب خرچ بھیجا کرتے تھے۔
ایک روز اس وقت رات کے گیارہ بج رہے تھے،کراچی شہر کی آباد سڑکوں میں ٹریفک کی روانی قدرے کم تھی،بازار سے خریداری کرنے کے لئے وہ گرجا گھر سے باہر نکلا تو دروازے پر ہی اس کی نظر ایک عورت پر پڑی جو چپکے سے چرچ کے کوڑے دان سے کھانے پینے کی اشیاء نکال رہی تھی،وہ نقاب پوش عورت کھانے پینے کی اشیاء اپنے پاس بچھائی ایک چادر میں ڈال رہی تھی لیکن اس کی نظریں بار بار ارد گرد کے ماحول کا جائزہ بھی لے رہیں تھیں کہ کہیں اسے کوئی دیکھ ہی نہ لے۔اس نے حیرانگی سے اس کی طرف دیکھا اور پھر تیزی سے اس کی طرف بڑھا
"آپ یہ سب اکٹھا کیوں کر رہی ہیں،کیا آپ کچرا اٹھانے والی ہیں”اس نے قریب جاتے ہی اس سے پوچھا تو اس عورت نے نفی میں سر ہلایا اور چپ چاپ اپنی جگہ پہ کھڑی ہو گئی۔اس عورت نے اپنا سر جھکایا ہوا تھا ورنہ وہ اس کی آنکھوں میں بے بسی دیکھ لیتا۔اس سے کوئی جواب نہ پا کر وہ دوبارہ اس سے مخاطب ہوا
"کیا آپ ایک مسلمان ہو”وہ چپ ہوا عورت نے اثبات میں سر ہلا دیا،یہ سننےکے بعد اس کے لبوں پہ زہریلی مسکراہٹ سج گئی
"تو آپ یہ کھانا کیوں اکٹھا کر رہی ہو،کیا آپ جانتی نہیں ہو کہ یہ کھانا عیسائیوں نے پھینکا تھا”اس نے سامنے چرچ کی طرف اشارہ کیا
"کیا بھوکے کا کوئی مذہب بھی ہو سکتا ہے بیٹا!بھوکا مسلمان بھی ہو تو وہ مندر سے کھانا کھا لیتا تھا،ایک غیر مسلم بھوکا مسجد اور دربار سے ملنے والا لنگر کھا کر بھی بھوک مٹاتا ہے اور کسی کی بھوک گرجا گھروں اور کلیسیاؤں کا کھانا کھا کر بھی مٹ جاتی ہے”اس عورت نے اس کی بات کا جواب دیا تو وہ سانس نہ لے سکا،اس گہری بات میں بہت سے معنی پوشیدہ تھے،چرچ سے نکل کر وہ جیسے ایک نئی دنیا میں آیا تھا۔
"لیکن آپ مسلمان ہم عیسائیوں سے دوستی تو بہت دور ہے،ہمیں انسان سمجھ کر بات کرنا بھی پسند نہیں کرتے اور آپ چرچ کے پادریوں کا جھوٹا کھانا نکال رہی ہیں،میں اس کی وجہ سمجھنے سے قاصر ہوں”وہ عجیب کشمکش کا شکار تھا
"میں ایک بیوہ ہوں میرے بیٹے،میرے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں،ہم کئی دنوں سے قافہ کشی کا شکار ہیں،میرے بچے بھوک سے بہت روتے ہیں تو میں نے مجبور ہو کر یہ کھانا اٹھانے کی ٹھان لی اور میں یہ کھانا صرف اپنے بچوں کے لئے لے جا رہی ہوں تا کہ ان کی زندگی بچ سکے”اس عورت نے اسے حقیقت سے آگاہ کیا تو اس کا دل افسردہ ہو گیا
"مگر آپ جو کچھ لے کر جا رہی ہو یہ سب پورک ہے،اس میں حرام جانور کا گوشت ہے اور آپ مسلمان حرام نہیں کھاتے”اس نے اس عورت پہ انکشاف کیا تو اس عورت نے بے بسی سے اپنا سر جھکا دیا اور پھر ذرا توقف کے بعد بولی
"میں کسی کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلا سکتی تھی،اپنے بچوں کی زندگی بچانے کے لیے میں یہ کھانا لے جاتی ہوں کیونکہ اللہ مجھے ضرور معاف کر دے گا لیکن مجھ سے اپنے بچوں کا رونا دیکھا نہیں جاتا”وہ عورت رونے لگی تو روجر کی آنکھوں سے بھی آنسو نکل آئے،اس نے اپنی جیب سے جتنے بھی نوٹ تھے وہ اس کی طرف بڑھا کر کہنے لگا
"آپ مسلمان ہو،ایک غیرت مند مسلمان جس نے کسی غیر کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلائے،میں آپ کو یہ حرام کھانا کھانے نہیں دے سکتا،آپ یہ سارے پیسے رکھیں اور اپنے بچوں کی بھوک مٹا لیں”اس کی کے آنسو اب گال سے بہتے گردن تک آ گئے تو اس عورت نے اس کے سامنے ہاتھ جوڑ دیئے
"تم ایک عیسائی ہو کر میری اتنی فکر کر رہے ہو”
"نہیں،میں انسان سمجھ کر اپنا حق نبھا رہا ہوں،مجھے اپنے گھر کا پتہ بتا دیں،جب تک آپ کے بچے کسی قابل نہیں ہوتے میں اپنی جیب خرچ سے آپ کو کچھ نہ کچھ رقم ادا کرتا رہوں گا”اس نے وہ پیسے عورت کو تھما دیئے تو اس عورت نے وہ پیسے پکڑ لئے اور اسے اپنے ساتھ چلنے کا کہہ کر روڈ پہ چلنے لگی،تھوڑی دیر میں ہی اس کا گھر آ گیا تو اس نے اس عورت سے اجازت لی اور چرچ واپس آ گیا،اس وقت رات کا ایک بج چکا تھا،چرچ واپس لوٹتے ہی وہ بستر پر گر گیا مگر نیند اس کی آنکھوں سے کوسوں دور تھی اور وہ بہت بے سکون تھا،وہ بے قراری کا شکار تھا۔
وہ پچھلے دس ماہ سے اس عورت کو باقاعدہ طور پر اپنی جیب خرچ سے پیسے ادا کرتا،اس کے دل کو اس عورت اور اس کے بچوں کی کفالت کر کے قدرے سکون ضرور ملا تھا مگر چرچ میں اس کا دل اب بھی نہیں لگتا تھا۔
ایک رات وہ اس عورت کو معمول کے مطابق رقم ادا کرنے جا رہا تھا جب راستے میں اسلحے کے زور پر دو ڈاکوؤں نے اسے لوٹ لیا اور جب اس نے مزاحمت کی کوشش کی تو انہوں نے اسے مار مار کے زخمی کر کے بے ہوش کر دیا۔نہ جانے وہ کتنی دیر یونہی روڈ پر بے ہوش پڑا رہا۔
جب اسے ہوش آیا تو اس نے خود کو ایک نرم بستر پہ پایا۔اس کے ہاتھ پہ کنولا لگا تھا جس کے ذریعے سے اسے ڈرپ لگی ہوئی تھی۔وہ کچھ دیر ارد گرد کے ماحول کو دیکھتا رہا اور پھر اسے یاد آ گیا کہ ڈاکوؤں نے اسے زخمی کر دیا اور اسے روڈ پر چھوڑ کر بھاگ گئے تھے۔وہ اس سے سارے پیسے چھین کر فرار ہو گئے تھے جب کہ وہ بے سُدھ روڈ پہ پڑا رہا۔جب اسے ہوش آیا تو وہاں پہ موجود نرس نے فورا ڈاکٹر کو بلایا اور پھر چند لمحوں کی تاخیر کے بعد ڈاکٹر وہاں پر موجود تھے۔ڈاکٹر اس کا چیک اپ کر کے اطمینان کا اظہار گیا،پھر وہ وہاں سے چلے گئے جب ہی پادری اسحاق کے ساتھ ساتھ اس کے والدین بھی وہاں پر پہنچ گئے۔
"تمہارے ساتھ کیا ہوا ہے”اس کے باپ نے سر پر ہاتھ پھیرا تو وہ کچھ دیر ہونقوں کی طرح اپنے باپ کی طرف دیکھتا رہا
"مجھے ڈاکوؤں نے مارا ہے”اس نے مختصر سا جواب دیا
"جب تم کراچی کے حالات کے بارے اچھی طرح جانتے ہو تو پھر تم کس لئے باہر نکلے تھے”اس کے باپ نے سنجیدگی سے پوچھا
"میں،بس ویسے ہی معمول کے مطابق باہر نکلا تھا”وہ بولا تو اس کے باپ نے اس کے رخسار پر زور سے تھپڑ رسید کر دیا تو وہ بوکھلا سا گیا
"ایک پادری بننے کی تربیت حاصل کرتے ہوئے تم جھوٹ بول رہے ہو”اس کے باپ کا چہرہ سرخ ہو گیا جب کہ اس نے اپنے گال پر ہاتھ رکھ لیا کیونکہ اس کے باپ نے اس کی حالت کی بھی پرواہ نہیں کی تھی،مگر اس تھپڑ کے جواب میں وہ کچھ بھی نہیں بولا تھا اور اس نے خاموشی اختیار کر لی تھی
"تم ایک مسلمان عورت کے گھر جا رہے ہو،تم کس مقصد کے لئے وہاں جاتے ہو”اس کے باپ کی آواز میں شدت تھی تو وہ سہم گیا
"میں ان کی مدد کرنے جاتا ہوں،وہ بیوہ ہے اور اس کے بچے یتیم ہیں”اس کی آواز کپکپا رہی تھی
"تم پچھلے کئی مہینوں سے اس عورت کے گھر جا رہے ہو،ایک پادری بننے والا شخص اس قدر گر بھی سکتا ہے یہ میں کبھی سوچ بھی نہیں سکتا،پادری اسحاق نے مجھے تمہارے بارے سب کچھ بتایا ہے،کاش وہ ڈاکو تمہیں گولی مار کر ہلاک کر دیتے تو آج میں تمہارا یہ بھیانک روپ نہ دیکھتا،تم آج کے بعد ہمارے لئے مر گئے ہو،میں تمہاری اب شکل بھی نہیں دیکھوں گا”اس کا باپ غصے سے کھول رہا تھا،پادری اسحاق کے چہرے پہ بھی غصے کے آثار تھے۔روجر فقط انہیں پھٹی پھٹی نگاہوں سے دیکھ رہا تھا۔یہ تھوڑے وقت میں ہی اس کے ساتھ کیا ہو گیا ہے۔
"وہ عورت ایک طوائف ہے،جو مردوں کے سامنے ناچتی ہے اور تم پیسے دینے کے بہانے اس کے پاس جاتے ہو”پادری اسحاق نے اس پہ انکشاف کیا تو وہ سانس لینا بھی بھول گیا۔وہ کیا سن رہا تھا اسے اپنے کانوں پر یقین ہی نہیں آ رہا تھا۔
"لیکن۔۔۔۔میں تو۔۔۔۔۔”اس نے اپنی صفائی میں بولنا چاہا لیکن پادری اسحاق نے اسے روک دیا
"تم اب چرچ سے اپنا سامان اٹھا لینا،تمہیں کچھ دیر میں ہی ڈسچارج کر دیا جائے،تمہارے لئے میرے چرچ میں اب کوئی جگہ بھی نہیں بچی”پادری اسحاق کہہ کر پلٹ گیا تو اس کا باپ بھی جانے لگا جب اس نے پیچھے سے آواز دے کر اسے روکنا چاہا
"بابا۔۔۔بابا”دو آنسو اس کی آنکھوں سے نکل کر گال پہ امڈ آئے
"تم میرے گھر قدم بھی نہ رکھنا،تمہارے لئے واپسی کے دروازے بند ہو چکے ہیں،جو چرچ میں رہ کر برائی کی طرف جا سکتا ہے تو اس سے گھر کیسے محفوظ رہ سکے گا،میں تمہیں ہر لحاظ سے عاق کر رہا ہوں”اس کا باپ کہتے ہوئے وہاں سے نکل گیا جب کہ وہ بے آواز آنسو بہاتا رہا کہ آخر اس کے ساتھ ہی ایسا کیوں ہوا،بچپن کی محرومیاں اب نو عمری میں بھی اس کا ساتھ نہیں چھوڑ رہی تھیں۔
ہسپتال سے ڈسچارج ہونے کے بعد اس نے چرچ سے بھی اپنا سامان اٹھا لیا تھا،وہ چرچ سے سامان سامان اٹھائے سیدھا اس عورت کے گھر گیا جس کی مدد کرتے ہوئے اس نے اس عورت کا نام تک بھی نہیں پوچھا تھا۔اس کی زندگی کے اب دن بدل گئے تھے،وہ بچپن سے ہی مسلسل الزامات کی زد میں رہا تھا اور اب پھر سے اس پر الزام لگایا گیا تھا مگر اس کا ضمیر مطمئین تھا کہ وہ غلط نہیں ہے،اسے پہلی بار تعصب کا نشانہ اس وقت بنایا گیا جب فقط سات سال کی عمر میں اس نے مسجد کا رخ کیا کیونکہ اسے لگتا تھا کہ شاید اسے مسجد جاتا دیکھ کر وہ مسلمان بچے اس سے دوستی کر لیں گے جو اس کے کلاس فیلو تھے لیکن امام مسجد کو جب یہ پتا چلا کہ وہ ایک عیسائی ہے تو امام مسجد نے اسے تھپڑ مار کر مسجد سے نکال دیا تھا۔اس کے بعد وہ مسلمانوں سے دور دور رہنے لگا تھا لیکن یہ پہلا موقع تھا کہ وہ کسی مسلمان کی مدد کر رہا تھا لیکن ایک مسلمان کی وجہ سے ہی وہ نہ صرف چرچ سے نکلا بلکہ اسے گھر سے بھی نکال دیا گیا تھا۔اسے شدید رنج تھا اور وہ غصے کی حالت میں تیز تیز چل رہا تھا،اس کے سر پہ پٹی بندھی تھی،وہ سامان اٹھائے اس عورت کے گھر کے پاس پہنچا اور اس نے زور زور سے اس عورت کے گھر کا دروازہ کھٹکھٹایا تو کچھ لمحوں میں ہی وہ عورت چہرے پہ دوپٹہ کئے دروازے پر آ گئی۔
"کون۔۔۔”اس نے اندر سے پوچھا
"روجر،میں روجر ہوں”اس نے غصے کی حالت میں بھی نرم لہجے میں اسے بتایا تو اس عورت نے جھٹ سے دروازہ کھول دیا،دروازہ کھلنے کی دیر تھی کہ وہ جھٹ سے اس عورت کے گھر میں داخل ہو گیا اور اس نے گھر کا دروازہ بند کر دیا
"آپ ٹھیک تو ہو نا بیٹا”اس عورت نے گھبرائے ہوئے انداز میں اس سے سوال کیا
"ہاں،کاش کہ ٹھیک ہوتا،مگر اب کچھ بھی ٹھیک نہیں ہے کیونکہ مجھے چرچ سے نکال دیا گیا ہے،مجھے میرے باپ نے گھر میں داخل ہونے سے منع کر دیا ہے اور وہ مجھے اپنی جائیداد سے بے دخل کر چکے ہیں،انہوں نے میری ذمہ داری لینے سے مکمل انکار کر دیا ہے،معلوم ہے کیوں،آپ کی وجہ سے،صرف آپ کی وجہ سے ہوا یہ سب،آپ اس سب کی ذمہ دار ہو”وہ غصے میں کھولنے لگا
"لیکن میں نے کیا کیا ہے بچے”وہ عورت پھٹی پھٹی نگاہوں سے اسے دیکھ رہی تھی تو اس نے ہاتھ میں پکڑا سامان زمین پہ دے مارا
"کیونکہ تم ایک اچھے کردار عورت نہیں ہو”وہ غرایا تو وہ عورت سہم کر خاموش ہو گئی،اس کی زبان کچھ بھی بولنے سے قاصر ہو گئی لیکن اس کی آنکھوں میں نمی اتر آئی تھی جو روجر نے دیکھ لی تھی
"کیا تم وہی عورت ہو جس کے بارے مجھے پادری اسحاق اور میرے بابا نے مجھے بتایا ہے”اس نے اس کے آنسوؤں کی پرواہ نہ کی
"نہیں،میں وہ عورت نہیں ہوں”اس نے مختصر سا جواب دیا تو اس کی زبان کو جیسے تالا لگ گیا،وہ عورت آگے بڑھ کر اس کا سامان اٹھانے لگی جب کہ وہ وہیں پر بت بنا اسے سامان اٹھاتا دیکھ رہا تھا
"آ جائو،اندر آ جائو،میں تمہیں اپنے بارے سب کچھ بتاتی ہوں بیٹے”وہ عورت اسے اندر آنے کا کہہ کر گھر کے صحن سے گزرتی کمرے میں چلی گئی اور وہ بھی اس عورت کی پیروی کرتے ہوئے اندر چلا گیا،کمرے میں چار بچے کھیل رہے تھے۔ان چاروں کی نظر جب اس پر پڑی تو وہ چاروں اٹھ کر ماں کی طرف بھاگے اور پوچھنے لگے کہ یہ کون ہے۔وہ چپ چاپ صوفے پر آ کر بیٹھ گیا تھا،اس کے اندر شرمندگی تھی کیونکہ یہ بات جھوٹ بھی ہو سکتی تھی۔ کچھ دیر میں وہ عورت بھی اس کے پاس آ کر بیٹھ گئی۔اب اس کے چہرے پر کوئی نقاب نہیں تھا۔
"بیٹا،میں پہلے تو بہت معذرت خواہ ہوں کہ میری وجہ سے تمہیں ہر جگہ سے بے دخل کر دیا گیا،تمہیں میری وجہ سے تکلیف پہنچی ہے”اس عورت کے چہرے پہ شرمندگی تھی
"میرا نام عائشہ ہے،مگر آج سے بیس سال قبل میں بھی تمہاری طرح ہی عیسائی مذہب سے تعلق رکھتی تھی”اس عورت نے جیسے ہی اسے اپنے عیسائی ہونے کے بارے بتایا تو اسے حیرت کا ایک شدید جھٹکا لگا مگر وہ خاموش نہیں ہوئی تھی
"میرا نام سارہ تھا،سارہ مسیح”وہ لمحہ بھر کے لئے رکی اور اس نے اپنا سر جھکا لیا تو روجر نے اپنا سر اٹھا کر اسے دیکھا
"تم جانتے ہو یہ پادری اسحاق کون ہے”اس نے سوالیہ نظروں سے اسے دیکھا تو روجر نے نفی میں سر ہلا دیا
"وہ میرا بڑا بھائی ہے”عائشہ نے جیسے ہی اسے پادری اسحاق سے اپنا تعلق بتایا تو وہ چکرا گیا،اس نے اپنے سر پر ہاتھ رکھا
"لیکن پھر انہوں نے کیوں مجھے آپ کی وجہ سے چرچ سے نکالا اور آپ کے لئے نامناسب الفاظ کا استعمال کیوں کیا ہے”روجر جیسے حواس کھو بیٹھا تھا
"میں سب بتاتی ہوں بیٹا،مجھے پادری اسحاق نے فقط اس لیے اپنے ساتھ رکھا تھا کہ میں مسلمان لڑکوں کو اپنی طرف مائل کر کے انہیں اسلام سے متنفر کروں اور عیسائی بنا دوں،لیکن پہلے ہی قدم پر اللہ پاک کو کچھ اور ہی منظور تھا اور مجھے جس لڑکے کو عیسائی بنانے کا بولا تھا مجھے اسی سے ہی محبت ہو گئی تھی”اس کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے
"میں اپنے بھائی کے کہنے پر اس کے قریب ہوئی تھی اور پھر اسی کے رنگ میں ڈھل گئی تھی،میں اس کی وجہ سے مسلمان ہو گئی،مسلمان ہونے کے بعد میں نے اسے سب کچھ سچ بتا دیا تھا اور اس سے یہ بھی درخواست کی کہ وہ مجھے اپنا لے،اس نے مجھے معاف کر دیا تھا اور مجھے اپنانے کی خامی بھر لی لیکن اس کا خاندان اس سے راضی نہیں ہوا تھا،اپنے خاندان کی شدید مخالفت کے باوجود بھی اس نے مجھ سے شادی کر لی۔اس کے بعد اس کے والد نے بھی اس سے ہر قسم کا ناطہ توڑ کر اسے بے دخل کر دیا،میرے بھائی اسحاق کو جس وقت یہ پتا چلا تو اس نے مجھ سے انتقام لینے کی کوشش کی مگر وہ ناکام رہا،اس نے عیسائی حلقوں میں یہ بات عام کر دی کہ میں ایک طوائف بن چکی ہوں اور عیسائیوں کو چھوڑ کر اب مسلمانوں میں رہنے لگی ہوں،لیکن میں نے کبھی اپنے بھائی کی کسی بات کا جواب نہیں دیا،میرا چھوٹا بیٹا چھ سال کا ہے اور وہ صرف چھ دن کا تھا جب ایک ٹریفک حادثے میں میرا شوہر انتقال کر گیا۔اس کے بعد میں دنیا میں بالکل بے آسرا ہوں،کیونکہ مجھے مسلمانوں نے بھی قبول نہیں کیا اور وہ یہ کہتے ہوئے مجھ سے ہاتھ تک نہیں ملاتے کہ پہلے تو میں ایک عیسائی تھی،میری عمر پچاس سال ہو چکی ہے بیٹا،میں نے الزامات کی زد میں ساری زندگی گزار دی ہے لیکن میں نے اور میرے میاں نے کبھی لوگوں کو ان کی کسی بات کا جواب نہیں دیا تھا،میرے میاں نے میرے ساتھ عمر بھر کے لئے وفا کی ہے،لیکن اس کے انتقال کے بعد جب میں اس کے والدین کے گھر گئی تو اس کے والدین نے مجھے دھکے دے کر باہر نکال دیا تھا اور میں اپنے بچوں سمیت واپس یہاں پر آ گئی ہوں،لیکن میرے پاس نہ تو کوئی ڈگری ہے کہ میں کوئی نوکری کر سکوں اور نہ ہی میرے پاس اتنی مال و دولت ہے کہ اپنے بچوں کا عمر بھر کے لئے پیٹ بھرتی رہوں،میرے شوہر ایک خطیر رقم بینک میں چھوڑ کر گئے تھے لیکن ایک سال پہلے وہ بھی ختم ہو گئی تھی،میں نے دو ماہ تک کوڑے دان سے کھانا نکال کر اپنے بچوں کو کھلایا تھا اور پھر تم آ گئے تھے،میں کسی کے سامنے بھی ہاتھ نہیں پھیلاتی کیونکہ میرا ایمان یہی ہے ہمیں رزق اللہ پاک کی طرف سے ملتا ہے۔ایک مسلمان بن کر میں نے امتحان ہی امتحان دیکھا ہے،میں سخت آزمائشوں سے گزری ہوں،لیکن اللہ نے مجھے صبر بھی عطا کیا ہے،میری یہ نیت کبھی نہیں تھی کہ تم یوں دربدر ہو جائو،تم خوار ہو جائو،تمہیں چرچ سے نکال دیا جائے،اگر پادری اسحاق تمہیں نہ جانتے ہوتے تو شاید وہ کبھی بھی ایسا نہ کرتے لیکن میری وجہ سے تمہیں جو تکلیف ملی میں اس کے لیے تم سے معافی مانگتی ہوں اور اگر تم مجھے معاف نہیں کرتے تو مجھے جو سزا دینا چاہتے ہو دے لو،کم از کم میں یہ قرض آخرت کے لئے نہیں رکھ سکتی”عائشہ اس کے سامنے ہاتھ جوڑے زار و قطار رو رہی تھی جب کہ اس کی رودار سن کر اس کی آنکھوں میں بھی آنسو آ گئے تھے۔
"میں نے آپ کو معاف کیا ہے،مگر میرے پاس چھت نہیں ہے اور نہ ہی کوئی ٹھکانہ ہے،کیا میں کچھ روز کے لئے یہاں پر رک سکتا ہوں”روجر کی آنکھوں سے نکلنے والے آنسو اس کے گال سے ہو کر اب گردن تک آ گئے تھے
"تم ہمیشہ کے لئے بھی یہاں پر رہ سکتے ہو بیٹا،مجھے اس بات کی پرواہ نہیں ہے کہ تم عمر بھر کے لئے عیسائی بنے رہو”عائشہ نے اپنے آنسو صاف کرتے ہوئے کہا
"لیکن مجھے اب عیسائی بن کر نہیں رہنا،اس وجود کے ساتھ میں بہت کچھ سہہ چکا ہوں،مجھے آپ جیسا صابر بننا ہے اور اس کے لئے مجھے مسلمان بننا ہے،تا کہ میں صبر کے ساتھ اپنی زندگی گزار سکوں”روجر بھی زار و قطار رو دیا تو عائشہ نے بے یقینی سے اسے دیکھا
"تم سچ کہہ رہے ہو بیٹے”عائشہ نے دونوں ہاتھوں سے چہرہ صاف کیا تو روجر نے فقط اثبات میں سر ہلا دیا،عائشہ نے اٹھ کر اس کا ماتھا چوم لیا،اس کا دل یہ سن کر باغ باغ ہو چکا تھا جب کہ روجر کی آنکھوں سے آنسو اب بھی جاری تھے۔
وہ مسجد نبوی کے سامنے کھڑا تھا،اس کی آنکھوں سے مسلسل آنسو بہہ رہے تھے،وہ زندگی میں پہلی بار اس مقدس شہر میں آیا تھا اور روضہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے ہاتھ جوڑے کھڑا تھا،سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے در پہ حاضری کے لئے اس نے کئی سال تک انتظار کیا تھا
"دادا کیوں رو رہے ہیں”اس کے پوتے نے پیچھے سے پوچھا تو اس کی ماں نے ہاتھ کا اشارہ کر کے اسے بولنے سے منع کر دیا
وہ مسجد نبوی کے سامنے کھڑا ہو کر اپنے دل کا حال بتانے لگا،اس کی عمر اب ساٹھ سال ہو چکی تھی،وہ چالیس سال پہلے مسلمان ہوا تھا،مسلمان ہونے کے بعد اس کا نام روجر سے "علی حیدر” رکھا گیا۔مسلمان ہونے کے دو سال بعد ہی عائشہ نے ایک مسلمان لڑکی کے ساتھ اس کی شادی کروا دی تھی اور پھر اللہ نے اسے اولاد سے بھی نوازا تھا۔مسلمان ہونے کے کئی سال بعد وہ اپنے والد کے پاس گیا تھا تو اس کے والد نے اس کے منہ پر تھوک دیا تھا اور اسے ایک ناپاک انسان قرار دیا تھا لیکن اسے اب صبر کرنا آ گیا تھا،مسلمان ہونے کے بعد اسے بھی عائشہ کی طرح کئی مشکلات درپیش آئیں تھیں کیونکہ معاشرے کے مسلمان اس کے ساتھ اب بھی بیٹھ کر کھانا نہیں کھاتے تھے،وہ اب بھی اسے اس کے ماضی کے مطابق پرکھ رہے تھے،لیکن وہ بالکل بھی مایوس نہ ہوا بلکہ ہمیشہ ثابت قدم رہا،اس کے چار بچوں میں سے دو میڈیکل کی فیلڈ میں جا کر کامیاب ڈاکٹر بن گئے جب کہ باقی دو بیرون ملک زیر تعلیم تھے۔مسلمان ہونے کے بعد اس نے تنہا ہی عائشہ گھر کی ذمہ داریاں اٹھائیں تھیں،پھر وقت نے اسے ایک اچھا مسلمان بنا دیا تھا۔عائشہ تین سال قبل انتقال کر چکی تھی۔پادری اسحاق بھی چرچ میں ہونے والی آتشزدگی کی وجہ سے جل کر مر چکا تھا۔وہ ساٹھ سال کی عمر میں مسجد نبوی میں کھڑا تھا،اس کے ساتھ اس کی زوجہ اور دونوں بیٹے بھی اپنی بیگمات کے ساتھ آئے تھے۔علی حیدر نے یہ کبھی بھی نہیں سوچا تھا کہ ایک دن وہ پادری بنتے بنتے مسلمان ہو جائے گا اور یوں مسجد نبوی کے سامنے کھڑا آنسو بہائے گا۔
"یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم،یہ میں نہیں جانتا کہ عشق کیا ہے،میں ادب سے بھی واقف نہیں ہوں،مگر میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا غلام ہوں،مجھ غلام کو قبول کر لیجئے،میری عمر گناہوں کی دلدل میں گزری ہے،مجھے اپنے قدموں میں جگہ دے دیجئے”وہ آنسوؤں میں ڈوبی آواز میں بول رہا تھا اور اس پہ رقت طاری ہو چکا تھا
"مجھے کسی سے کوئی شکایت نہیں ہے کیونکہ مجھے اپنے ہی مسلمان بھائیوں نے قبول نہیں کیا تھا،وہ میرا ماضی سامنے رکھ کر مجھے پرکھتے رہے”اس نے اپنے آنسو صاف کئے۔
"مگر آپ کے بلاوے نے مجھے انمول کر دیا ہے،اے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجھے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے در پہ حاضری کا شرف بخشا ہے،مجھے اپنے قدموں میں جگہ بھی دیجئے”وہ مسلسل رو رہا تھا جب کہ اس کے پیچھے کھڑے دونوں بیٹے اور اس کی زوجہ بھی آنسو بہا رہے تھے۔وہ ہاتھ اٹھائے دعا مانگ ہی رہا تھا جب اس کے کندھوں پہ کسی نے ہاتھ رکھا،کندھے پہ ہاتھ پڑتے ہی وہ جیسے اپنے حواسوں میں واپس آیا۔پولیس کی وردی میں ملبوس ایک شخص بڑے غور سے اس کا چہرہ دیکھ رہا تھا جیسے اسے پہچاننے کی کوشش کر رہا ہو
"تم۔۔۔تم تو عیسائی ہو،تم روجر ہو”اس نے اپنے سر پر ہاتھ مار کر پوچھا تو اسے بھی اس شخص کو پہچاننے میں دیر نہ لگی
"تم حسن ہو،حسن علی”اس نے نم آنکھوں کے ساتھ اسے جواب دیا
"ہاں!لیکن تم یہاں کیسے”وہ متجسس زدہ سا ہوا
"اس کائنات میں ایک ہی ہستی ہے جن کے در پہ ہر فقیر کی داد رسی ہوتی ہے اور وہ ہستی اللہ کے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں،مجھے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی غلامی میں قبول کیا ہے تو میں آج ان کے در پر کھڑا ہوں،مجھے کسی مسلمان نے بھائی کے طور پر قبول تو نہیں کیا لیکن سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھ گنہگار کا دامن اپنی نظر کرم سے بھر دیا ہے،میں روجر نہیں ہوں،میں علی حیدر ہوں،شاید میرا نام ہی میری قبولیت کی وجہ بن گیا،کیونکہ میرا نام شیر خدا کے نام سے علی رکھا گیا ہے”وہ آنسو بہاتا اس کا ہاتھ کندھے سے اٹھا کر چند قدم آگے بڑھ گیا جب وہ حسن علی فقط اسے دیکھتا رہ گیا تھا۔
مسجد نبوی کی فضائیں رحمتِ خداوندی سے معطر ہو رہیں تھیں،وہ سب اس وقت نماز عصر کی ادائیگی کے لئے صف آراں تھے۔ساٹھ سالہ علی حیدر بھی پہلی صف میں کھڑا جماعت کے ساتھ نماز ادا کر رہا تھا۔اس کے ساتھ کچھ ہی فاصلے پر ساٹھ سالہ حسن علی بھی تھا نماز عصر ادا کر رہا تھا۔فرض نماز باجماعت شروع ہو چکی تھی۔امام صاحب نے پہلی تین رکعت مکمل کیں اور سب نے ان کی اقتداء میں تینوں رکعات پڑھیں مگر چوتھی رکعت کا آخری سجدہ کر کے جب امام صاحب اٹھے تو ایک شخص ان کی اقتداء میں نماز پڑھتا اپنا سر اوپر نہیں اٹھا سکا تھا۔وہ سجدے میں ہی پڑا رہا،امام صاحب نے نماز مکمل کر کے سلام پھیرا تو سب لوگ اس شخص کی طرف متوجہ ہوئے،اس کے پاس بیٹھے ایک شخص نے اسے پکڑ کر ہلایا تو اس کا وجود ایک طرف لڑھک کر زمین کے ساتھ لگ گیا۔سب لوگ رشک سے اسے دیکھ رہے تھے کیونکہ وہ شخص سجدے کی حالت میں اس دار فانی سے کوچ کر چکا تھا،اس کا وجود ٹھنڈا پڑ چکا تھا۔اسے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا در نصیب ہو چکا تھا۔اسے قبول کر لیا گیا تھا۔حسن علی نے جب اس کی طرف دیکھا تو اس کی آنکھوں سے آنسو نکل آئے،وہ کوئی اور نہیں علی حیدر تھا جس سے کئی سال قبل اسے نفرت ہو گئی تھی۔لیکن مسلمان ہونے کے بعد علی حیدر نے جو مقام پا لیا تھا وہ اسے نہیں مل سکا تھا،حسن علی پچھلے تیس سال سے مسجد نبوی میں حفاظتی امور کا سربراہ تھا اور پچھلے تیس سال میں اس نے ہر ہر نماز مسجد نبوی میں ہی ادا کی تھی لیکن ایک نو مسلم اس پہ سبقت لے گیا تھا۔حسن علی کا مسجد نبوی میں وہ آخری روز تھا کیونکہ اس کے بعد وہ ریٹائرڈ ہو رہا تھا اور اسے پاکستان واپس لوٹ جانا تھا۔حسن علی اپنی جگہ سے اٹھ کر حیدر علی کے پاس آیا اور اس کے ماتھے پہ بوسہ دیتے ہوئے بولا
"مجھے معاف کر دینا میرے دوست،تم سبقت لے گئے ہو،تم سبقت لے گئے ہو”
حیدر علی اب اس دنیا سے رخصت ہو چکا تھا اور اسے اب جنت البقیع میں دفنانے کے لیے لے جایا جا رہا تھا۔